18 فروری ، 2025
برطانوی بحریہ کے کموڈور اور کمبائنڈ میری ٹائم فورسز کے ڈپٹی کمانڈر بین آلڈوس نے بحرہند میں تناؤ کی فضا، تنازعات کا خطرہ اور قذاقی کا مسئلہ اٹھادیا۔
کموڈور بین آلڈوس نے کراچی میں امن مشقوں میں شرکت کی، پاک بحریہ کے اعلیٰ افسروں سے ملاقاتیں کی اور امن ڈائیلاگ میں میری ٹائم اشتراک اورتعاون کے عنوان پر روشنی ڈالی۔
برطانیہ کے کموڈور نے لیکچر کا آغاز پاک بحریہ سے اس بات پر اظہار تشکر کرتے ہوئے کیا کہ اس نے میری ٹائم شعبے کے انتہائی ممتاز ماہرین اورلیڈرز کو امن ڈائیلاگ میں دعوت دی ہے، ساتھ ہی انہوں نے گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے امن مشقوں میں شریک تمام ممالک کے مندوبین کے اعزاز میں گورنر ہاؤس کراچی میں عمدہ ضیافت، مختلف صوبوں کی رنگارنگ ثقافت اور شاندار آتشبازی کا اہتمام کیا۔
کموڈور آلڈوس نے کہا کہ میری ٹائم سکیورٹی کو متفرق خطرات درپیش ہیں اور یہ مسلسل تبدیل ہورہے ہیں، سمندروں میں قذاقی کی لعنت اب منظم جرائم کی سنڈیکیٹ کا روپ دھار چکی ہے جس میں مسلح ڈکیتیاں، اغوا اور غیرقانونی اسلحہ کی اسمگلنگ بھی شامل ہوگئی ہے۔ وہ بولے کہ غیرقانونی طورپر مچھلیوں کا شکاربھی سمندری ذخائر کم کررہا ہے جس سے لاکھوں افراد کو غذائی بحران کے خطرات کا سامنا ہے۔
ماضی کا حوالہ دیتے ہوئے برطانوی بحریہ کے کموڈور کا کہنا تھا کہ میری ٹائم ڈومین کو کبھی سب کیلئے مشترک شے تصور کیا جاتا تھا مگر اب یہ تیزی سے فوجی علاقہ بنتی جارہی ہے جہاں کشیدگیاں اور ممالک کے درمیان مسابقتیں بڑھ رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کثیرالجہتی چیلنجزکی موجودگی میں کسی ایک قوم یا تنظیم کیلئے اپنے میری ٹائم مفادات کا مؤثر طور پر تنہا رہ کر تحفظ ممکن نہیں کیونکہ سولہویں صدی کی کتابوں میں درج سمندر پرحکمرانی کا دور گزر چکا۔
انہوں نے کہا کہ میری ٹائم ڈومین ایک دوسرے سے منسلک ہے اوراسی لیے یہ تقاضا کرتی ہے کہ اجتماعی اور اشتراک کی سوچ اپنائی جائے، وسائل اور معلومات شیئر کی جائیں اور کاوشوں میں ہم آہنگی لائی جائے، اب میری ٹائم سکیورٹی کیلئے نہ صرف حکومتوں، بحریہ اور کوسٹ گارڈز بلکہ قانون نافذ کرنیوالی ایجنسیوں، صنعتوں اور سول سوسائٹی کو بھی شامل کیا جانا چاہیےکیونکہ درپیش چیلنجز سے اسی طرح جامع اور مؤثرانداز سے نمٹا جاسکتا ہے۔
میری ٹائم جرائم سے نمٹنے کیلئے اقوام کی صلاحیتیں بڑھانے کا طریقہ انہوں نے مشترکہ گشت، تربیتی مشقیں اور استعداد کار میں اضافہ قرار دیا اور کہا کہ اس طرح فشریز کو بھی ریگولیٹ کیا جاسکے گا، میری ٹائم وسائل کو محفوظ اور میری ٹائم سیفٹی تعاون کو فروغ ملے گا۔
کموڈور نے کہا کہ ان اقدامات سے سرچ اور ریسکیو آپریشنز، نیوی گیشنل سیفٹی بہتر ہوگی اور میری ٹائم ٹریفک منیجمنٹ سے حادثات میں کمی اور قیمتی جانوں کا بچانا آسان ہوگا۔
کموڈور آلڈوس کا کہنا تھا کہ مشترکہ میری ٹائم سکیورٹی سے علاقائی استحکام کو بھی فروغ ملتا ہے کیونکہ اس سے اقوام کےدرمیان اعتماد کی فضا پید ہوتی ہے، کشیدگیوں میں کمی آتی ہے اور تنازعات کا پرامن حل نکالنے کی فضا بنتی ہے۔
انہوں نے کمبائنڈ میری ٹائم فورسز کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بحثیت ڈپٹی کمانڈر وہ دنیا کی سب سے بڑی میری ٹائم شراکت داری کے نگران ہیں، چھیالیس ممالک پر مشتمل سی ایم ایف کا مقصد انہوں نے دنیا میں سکیورٹی اور استحکام قراردیا اور بتایا کہ اس کے آپریشن کا بین الاقوامی پانیوں میں دائرہ کار تیس لاکھ اسکوائر میل تک پھیلا ہوا ہے۔
برطانوی بحریہ کے کموڈور نے شرکا کو بتایا کہ کمبائنڈ میری ٹائم فورسز بحرہند میں بھی سکیورٹی آپریشن انجام دیتی ہیں تاکہ اس خطے میں استحکام ہو، ان فورسز کی رکنیت کے فوائد کی یاد دہانی کی ضرورت اس لیے نہیں کیونکہ اس وقت ہمارا میزبان ملک پاکستان سی ایم ایف کے سب سے بڑے معاونین میں سے ایک ہے۔
برطانوی بحریہ کے کمانڈر نے خبردار کیا کہ اس خطے میں عالمی طاقتوں کی بڑھتی موجودگی نے تنازعات کا امکان بڑھا دیا ہے اور یہ تنازعات علاقائی نوعیت کے بھی ہیں، سمندر میں طاقت کا استعمال خواہ وہ علاقائی تنازعات کی خاطر ہو یا کسی وسیع تر اسٹریٹیجک مقاصد کے تحت، وہ شدید تشویش کا باعث ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ سیاسی تناؤ کم کرنے کیلئے مل کرکام کیا جانا چاہیے، کمبائنڈ میری ٹائم فورسز ملٹی لیٹرل ڈائیلاگ، مشترکہ بحری مشقوں اور میری ٹائم انٹیلی جنس کی معاونت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں جن کی وجہ سے غلط فہمیاں اور کشیدگی پیدا ہونے کا امکان کم ہوجاتا ہے۔
برطانوی بحریہ کے کموڈور نے بحرہند میں قذاقی پر شدید تشویش ظاہر کی اور کہا کہ گرچہ اس سے نمٹنے میں نمایاں پیشرفت ہوئی ہے تاہم خطرہ ابھی مکمل طورپر ختم نہیں کیا جا سکا، صومالیہ کے ساحلوں اور خلیج عدن میں قذاقی ایک عشرے کے مقابلے میں تو کم ہوئی مگر پچھلے دو برسوں میں یہ بڑھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی ایم ایف ان سرگرمیوں کو کچلنے میں پیش پیش ہے۔
انہوں نے قذاقوں کیخلاف کارروائی میں پاکستان بحریہ کے کردار کو بھی سراہا۔
کموڈور نے قذاقی کی وجوہات میں غربت، عدم استحکام اور کمزور گورننس کو اہم فیکٹرقرار دیا اور کہا کہ اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے ملٹی ڈومین حکمت عملی کی ضرورت ہے جس میں نہ صرف فوج کی موجودگی ہو بلکہ مسائل کی جڑ ختم کی جائے، ترقیاتی کاموں کیلئے امداد، گورننس میں اصلاحات اور علاقائی صلاحیتوں میں اضافہ ہونا چاہیےاور سی ایم ایف انہی امور میں معاونت کررہا ہے۔
برطانوی بحریہ کے کموڈور نے کہا کہ بحرہند غیرقانونی سرگرمیوں بشمول منشیات اور انسانوں کی اسمگلنگ کی بھی آماجگاہ ہے۔
افغانستان سے ہیروئن اور جنوب مشرقی ایشیا سے سینتھیٹک منشیات کی غیرقانونی اسمگلنگ کو انہوں نے نہ صرف اس خطے بلکہ دنیا بھر کیلئے بڑا خطرہ قرار دیا اور کہا کہ یہ غیرقانونی سرگرمیاں نہ صرف اقوام کو عدم استحکام سے دوچار کرتی ہیں بلکہ منظم جرائم اور دہشتگردی کا بھی سبب بنتی ہیں۔
انسانی اسمگلنگ روکنے کیلئے برطانوی بحریہ کے کمانڈر نے قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے درمیان مضبوط تعاون کی ضرورت اجاگر کی۔ انہوں نے کہا کہ علاقائی شراکت دار اس ضمن میں مل کر کام کرسکتے ہیں جس میں سی ایم ایف جیسی تنظیمیں بھی معاونت کرسکتی ہیں تاکہ عالمی معیاروں پرعمل ہو اور ضرورت مندوں کی انسانی بنیاد پر مدد ہو۔
جدید ٹیکنالوجیز کے خطرات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جوں جوں ٹیکنالوجی ترقی کررہی ہے، میری ٹائم ڈومین کے چیلنجز بھی بڑھ رہے ہیں، خود کار ڈرونز مواقعوں کے ساتھ ساتھ میری ٹائم سکیورٹی کیلئے خطرات کا بھی باعث ہیں، اس لیے نئی ٹیکنالوجیز کا ذمہ دارانہ اور اخلاقی استعمال ہونا چاہیے، ساتھ ہی اس بات کیلئے تیار رہنا چاہیے کہ غیرریاستی عناصر ہی نہیں مسابقتی اقوام بھی انہیں استعمال کرسکتی ہیں۔
سائبرحملوں کے خدشات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بندرگاہیں، جہاز راں کمپنیاں اور بحری اثاثے نیوی گیشن، لاجسٹک اور کمیونی کیشن کیلئے زیادہ تر ڈیجیٹل نظام پر انحصار کرتے ہیں، اہم میری ٹائم انفراسٹرکچر پر سائبر حملہ عالمی تجارت کو شدید نقصان اور ماحولیاتی سانحہ سے دوچار کرسکتا ہے، اس کے تدارک کیلئے مشترکہ کوششیں کی جانی چاہیں، بہترین طریقوں کا ایک دوسرے سے تبادلہ کیا جائے، کمیونی کیشن کا محفوظ نظام تیار کیا جائے اور سائبرحملوں سے نمٹنے کے پروٹوکولز بنائے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ جدید چیلنجز غیرمعمولی مواقع بھی پیش کرتے ہیں کہ مشترکہ اقدامات کیے جائیں اور عالمی تعاون بڑھایا جائے، سی ایم ایف ایک ایسا فریم ورک دیتا ہے جس میں ہم خیال اقوام کا مل کر کام کرنا ممکن ہے۔
برطانوی بحریہ کے کموڈور نے کہا کہ کئی دیگر مقررین بھی اس بات کو تسلیم کرچکے ہیں کہ کوئی ایک قوم یا ادارہ ان چیلنجز سے عہدہ برا نہیں ہوسکتا، حکومتوں، تنظیموں، صنعتوں، لوکل کمیونیٹیز اور امن مشقوں و ڈائیلاگ جیسے فورم اور سی ایم ایف کے ذریعے یقینی بنایا جاسکتا ہے کہ خطہ اور اس کے پانی محفوظ اور خوشحال ہوں اور میری ٹائم اسپیس سب کے مفاد میں استعمال ہو۔