09 اپریل ، 2025
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی رہائی کے لیے امریکا میں پی ٹی آئی سے وابستہ افراد اپنی ذاتی حیثیت میں اس بات پر قائل ہیں کہ انگیجمنٹ کے سوا کوئی راستہ نہیں، معاملہ بلآخر مذاکرات کی میز پر ہی حل ہوگا۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے عالمی امور عاطف خان نے اس نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'پارٹی میں شامل بعض ایسے لیڈر جو انگیجمنٹ کے مخالف ہیں وہ نہیں چاہتے کہ خان رہا ہو۔ انہیں اپنی سیاسی دکان بند ہونے اور سوشل میڈیا پر ویوز ختم ہونے کا ڈر ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی شعلہ بیانی سے درجہ حرارت کم ہونے نہیں دے رہے۔'
عاطف خان نے کہا کہ وہ خود پاکستان آکر انگیجمنٹ بڑھانے کے لیے تیار ہیں اور بتایا کہ انہوں نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کرنیوالے ڈاکٹر منیر، ڈاکٹر سائرہ بلال اور عثمان ملک کی حوصلہ افزائی کی تھی کہ وہ برف پگھلانے کے لیے کردار ادا کریں۔
عاطف خان پی ٹی آئی کے وہ ینگ لیڈر ہیں جنہوں نے بچپن میں شوکت خانم اسپتال کیلیے کام کیا۔18برس کی عمر میں مانسہرہ میں عمران خان، عارف علوی اور دیگر کی اپنے گھر میں میزبانی کی اور مسلم لیگ سے دیرینہ وابستہ اپنے گھرانے کو پی ٹی آئی میں شامل کرایا۔
عاطف خان نے کہا کہ پی ٹی آئی کی آرگنائزیشن آف انٹرنیشنل چیپٹرز کے سیکرٹری سجاد برکی نے انہیں ابتدا میں خبردار کیا تھا کہ ڈاکٹروں کا وفد پاکستان بھیجنا مناسب نہیں اور یہ بڑی زمہ داری ہوگی تاہم ڈاکٹروں کے واپس آنے کے بعد سجاد برکی بھی اس بات کے قائل ہیں کہ یہ درست اقدام تھا اور بحثیت دوست وہ اس معاملے پر ساتھ کھڑے ہیں۔ اس نمایندے نے سجاد برکی سے اس کی تصدیق چاہی تورابطہ ممکن نہیں ہوسکا۔
پی ٹی آئی امریکا سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں کے وفد کو پاکستان بھیجنے میں اہم کردار ادا کرنیوالے امریکن پاکستانی کاروباری شخصیت تنویر احمد نے اس نمایندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسلام صلح اور نیکی کا درس دیتا ہے اور ان کا یہ اقدام نیک نیتی پر مبنی تھا۔ بتایا کہ وفد میں شریک ہر شخص کی یہ اپنے طور پر بھی خواہش تھی کہ معاملات بہتری کی جانب بڑھیں۔
پی ٹی آئی امریکا زرائع کے مطابق پاکستان جانیوالے ڈاکٹروں کو خود پی ٹی آئی ہی کے ایک اہم لیڈر نے بھی روکنے کی کوشش کی تھی اور خدیجہ شاہ کا حوالہ دیتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ وہ ون وے ٹکٹ کٹوا رہے ہیں۔ وفد اس شخص کی بات خاطرمیں تو نہیں لایا مگر ان میں سے بعض کے چہروں پر پریشانی کے آثار اس وقت تک قائم رہے جب تک کہ وہ پاکستان سے امریکا واپسی کی کنیکٹنگ پرواز سے دوحہ اُتر نہیں گئے تھے۔
تنویر احمد نے کہا کہ اصل معاملہ پی ٹی آئی کے نام نہاد حامی سوشل میڈیا انفلوئنسرز نے بگاڑا۔انہیں یقین ہوگیا تھا کہ وفد کی ملاقاتیں نتیجہ خیز ہوئیں تو انکے تجزیوں اور تبصروں سے مرچ مصالحہ غائب ہوجائےگا اور وہ ہزاروں ڈالرز روزانہ چھاپنے سے محروم ہوجائیں گے۔
تنویر احمد نے کہا کہ پاکستان میں سیاسی استحکام ہو،عمران خان کو ضمانت پر رہائی مل جائے تو سب سے بڑا نقصان انہی یوٹیوبرز کا ہوگا اور یہ اس کے لیے پاکستان کی ساکھ داو پر لگائے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ خطرناک رجحان ہے کہ چیزیں درست سمت میں جارہی ہوں اور سوشل میڈیا کے زریعے اثر ڈال کر رُخ موڑ دیا جائے۔
سوشل میڈیا پر بے پر کی منگل کو اس وقت بھی اڑائی گئی جب بانی پی ٹی آئی کی تین بہنوں علیمہ خان، عظمی خان اور نورین خان کوحراست میں لے کر شادی ہال منتقل کیا گیا تھا۔ ویوز کی دوڑ میں سنسنی خیزی پھیلائی گئی کہ تینوں بہنیں گرفتارکرلی گئی ہیں۔
پی ٹی آئی کے ایک ڈونر نے دعویٰ کیا کہ کپتان جب تک جیل میں ہے،بعض پارٹی رہنماوں کی آمدنی کا اہم ذریعہ چندہ ہے جو وہ مختلف مد میں جمع کررہے ہیں۔ساتھ ہی دعوی کیا کہ پارٹی کے ڈی چوک پر جلسے میں لوگوں کو لانے لیجانے اور دیگر انتظامات کے نام پر امریکا میں پی ٹی آئی کے ایک لیڈر نے تین لاکھ ڈالر جمع کیے تھے جو وزیراعلی گنڈا پور کو دیے جانے تھے تاہم وہ گنڈاپور تک نہیں پہنچے۔رقم کہاں گئی،کچھ پتہ نہ چلا۔
اسی ڈونر کا کہنا تھاکہ امریکا کے صدارتی اور کانگریشنل الیکشن کےدوران بھی چندے کی یہ مہم جاری تھی جس میں مختلف امیدواروں کی میزبانی کے نام پر رقم جمع کرکے جیبیں گرم کی گئیں۔ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے ہری جھنڈی دکھائے جانے پراب یہ افراد بغلیں جھانکتے نظرآتے ہیں۔
امریکا میں پی ٹی آئی کے ایک رہنما کے بقول ذاتی مفاد کی چھری پارٹی مفاد کے گلے پر پھیری جارہی ہے جس سے پی ٹی آئی کے اوورسیز حامی بد دل ہورہےہیں۔
ممکن ہے اسی صورتحال کے سبب شاہ محمود قریشی نے پی ٹی آئی رہنماؤں سے منگل کو اپیل کی ہے کہ اتفاق رکھیے اور جیل والوں کیلیے کچھ کریں۔