11 مارچ ، 2013
اسلام آباد…چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے سانحہ بادامی باغ پر پنجاب حکومت کی رپورٹ مسترد کر تے ہوئے کہا ہے کہ رپورٹ میں وجوہات اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، حکومتی رٹ کہاں ہے ، واقعہ کی وجوہات سامنے آنی چاہئیں۔حضور پاک ﷺکی حرمت سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں مگر توہین رسالت کا قانون موجود ہے، اس کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں تین رکنی بنچ سانحہ بادامی باغ از خود نوٹس کیس کی سماعت کر رہا ہے ، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اشتر اوصاف نے عبوری رپورٹ جمع کرا تے ہوئے بتایا کہ متاثرین کو معاوضہ ادا کر دیا ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو آپ کی ذمہ داری اور حکومت کا فریضہ ہے ، جب ایسی اطلاعات موجود تھیں تو حفاظتی اقدامات کیوں نہیں کیے گئے، زمین کا مالک کون ہے جو اس پر قبضہ حاصل کرنا چاہتا تھا،علاقے کو لوگوں سے کیوں خالی کرایا گیا، کسی کی زمین تھی تو وہ اس کے لیے عدالت سے رجوع کرتا ،آخر کس کے کہنے پر علاقہ خالی کرایا جا رہا تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کو چاہیے تھا کہ رینجرز اور فورس کا استعمال کر کے اقلیتوں کو مکمل تحفظ دیتے ، عدالت نے پنجاب میں مستقل آئی جی کا تقرر نہ ہونے پر بھی ناراضگی کا اظہار کیا،ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے درخواست کے باوجود مستقل آئی جی کی تقرری نہیں کی، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ صورت حال ہے تو امن وامان کا اللہ حافظ ہے ، بتائی گئی اسٹوری پر کوئی یقین نہیں کرے گا، سات تاریخ کا واقع ہے، 36 گھنٹے بعد کس نے ہنگامہ آرائی کے لیے تیار کیا، کسی نے تو مظاہرین کو تیار کیا ہو گا،ایف آر آئی درج کرنے کے بعد علاقہ کیوں خالی کرایا گیا اور یہ کس کا مفاد تھا، پولیس کیوں تفتیش نہیں کرتی کہ اصل معاملہ کیا ہے، کس پر بھروسہ کریں، کیا پنجاب پولیس میں کیوں بھی دیانت دار افسر نہیں،عدالت نے گوجرہ واقعہ کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسے پبلک کیوں نہ کیا گیا، احتجاج کا طریقہ کار ہوتا ہے جس کی بہترین مثال کوئٹہ میں قائم کی گئی ،قیمتی جانوں کے ضیاع پر لواحقین نے احتجاج کیا اور ایک گلاس تک نہ ٹوٹا،رمشا مسیح کیس میں بھی پرامن احتجاج ہوا اور تفتیش میں ثابت ہوا کہ کیس ہی غلط ہے ،اب تو چھوٹی موٹی باتیں نہیں چھپ سکتیں، یہ تو بڑا معاملہ ہے۔