20 نومبر ، 2013
جنیوا…دو بیٹھکیں کسی نتیجے کے بغیر ہی تمام ہوئیں، اب تیسری کی تیاری ہے، جنیوا میں عالمی طاقتوں اورایران کے آج ہونے والے مذاکرات پرایک بار پھر دنیا بھر کی نظریں لگ گئی ہیں۔ جنیوا کا انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل ایک بار پھر تیار ہے۔ مسئلہ وہی پرانا۔ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنا اور مذاکرات کی میزپر ایک بار پھر ہوں گی چھ عالمی طاقتیں اور ایران۔ رواں ماہ کی 8 سے 11 تاریخ تک یورپی یونین کے تعاون سے جنیوا ہی میں وہ مذاکرات ہوئے جو عالمی سیاست کا نقشہ بدل سکتے تھے لیکن تین دن تک سر جوڑ کر بیٹھنے والے تمام بڑے کسی نتیجے کے بغیر ہی اٹھ کھڑے ہوئے۔پر یورپی یونین نے ہمت نہ ہاری اور مذاکرات کا ایک اور دور 20 نومبر کو رکھ لیا۔پچھلی بار ایران کی نمائندگی کرنے والے وزیرخارجہ جواد ظریف نے ایک بار پھر جنیوا کی اڑان بھرلی ہے۔روم سے نکلتے ہوئے ایرانی وزیرخارجہ بہت پْرامید تھے۔ کہنے لگے کہ اگر نیک نیتی اورباہمی مفاد کو ذہن میں رکھ کر مذاکرات ہوئے تو کامیاب بھی ضرور ہوں گے ۔ادھر ایران کے خلاف نئی پابندیوں کے پَر تولتی امریکی کانگریس کو بھی صدر اوباما نے صبر سے کام لینے کا مشورہ دیا ہے۔امریکی صدر نے اپنی ہی کانگریس کو خبردار کیا ہے کہ اگر مذاکرات یا سفارتی معاہدے سے پہلے ہی ایران پر مزید پابندیوں کا فیصلہ کیا گیا تو تہران جوہری ہتھیاروں کی تیاری میں پوری تیزی دکھائے گا۔ لوہا گرم دیکھ کرامریکا کے اتحادی برطانیہ نے بھی چوٹ مارنے کی سوچی اور وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایرانی صدرحسن روحانی کو فون گھمادیا۔ ڈیوڈ کیمرون 10 سال سے زائد عرصے میں کسی ایرانی لیڈر کو فون کرنے والے پہلے برطانوی وزیر اعظم ہیں۔ دونوں رہنماوٴں نے ایرانی ایٹمی پروگرام اور شام کے تنازع پر بات کی۔ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کا پہلا اور دوسرا دور تو بیکار گیا تھا۔۔ تیسرے دور میں امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، چین اور روس، ایران کو رام کرپائیں گے، یہ بات مذاکرات کے اختتام پر سامنے آجائے گی۔