10 فروری ، 2014
اسلام آباد…بیرسٹر اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا مقدمہ عوامی مفاد کی خاطر لڑا تھا، آئندہ بھی کسی کی ایسی پکار آئی تو مدد کو پہنچ جاوٴں گا۔ عدلیہ بحالی تحریک کے مرکزی کردار بیرسٹر اعتزاز احسن نے ایک بار پھر سپریم کورٹ کا رخ کر لیا ہے۔ 22 مارچ 2009ء کو سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بحال ہوئے تو اعتزاز احسن نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ ان کے سامنے بطور وکیل پیش نہیں ہوں گے۔ بیرسٹر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ میں وکلاء کی سیاست میں نہیں پڑتا تھا مگر افتخار چوہدری نے مجھے اپنا وکیل کیا تو مجھے وکلاء سیاست میںآ ہستہ آہستہ آنا پڑا، جب جج بحال ہوگئے تو میں نے سمجھا کہ میرا کام ختم ہوگیا، بہت مالی نقصان ہوا، ایک دو نہیں سیکڑوں کلائنٹس کو انکار کیا، تخمینہ نہیں لگایا جاسکتا کہ کتنا خسارہ ہوا، مگر میں نے اپنی عزت بچائی۔ اعتزاز احسن کہتے ہیں کہ چیف جسٹس کی عدالت میں کوئی کیس جیت جاتا تو فیورٹ ہونے کا الزام لگتا،اگر ضمانتیں کراتا، احکامات امتناعی لیتا، اسٹے کراتا تو لا محا لہ مجھ پر انگلی اٹھتی، اگر فیصلے میرے حق میں ہوتے تو لوگ کہتے دیکھواس کو فیور کیا جارہا ہے، اگر ہار جاتا تو لوگ کہتے دیکھو کیسے زعم سے کلائنٹ کو لے کر گیا تھا کہ چلو میں تمہارے حق میں فیصلہ دلاتا ہوں۔ اعتزاز احسن کا ماننا ہے کہ اگر وہ افتخار چوہدری کے سامنے مقدمے لڑتے تو یہ ایک وکیل اور چیف جسٹس دونوں کے لیے مشکل بھی ہوتا،میری رائے میں یہ مشکل پڑنی تھی مجھے اور چیف جسٹس کو بھی جب آمنے سامنے آتے، وہ میرا لحاظ کرتے تو یہ بھی نا جائز ہوتا اور اگر فیصلہ میرے حق میں نہ کرتے یہ سوچ کر کہ جانبداری کا الزام آئے گا، وہ بھی صحیح نہیں ہوتا۔ اعتزاز احسن کو شکوہ ہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے عدالتی اصلاحات پر توجہ نہیں دی، نظام عدل بدلا ہے نہ کار جبر بدلا ہے، چوہدری صاحب نیعدالتی نظام کو اور ماتحت عدلیہ کی اصلاحات کو نظر انداز کیا، بطور چیف جسٹس انہیں اس پر فوکس کرنا چاہیے تھا۔ بیرسٹر اعتزاز احسن سمجھتے ہیں کہ یہ مشکل ہی ہے کہ ملکی تاریخ میں پھر کبھی افتخار محمد چوہدری جیسا طاقت ور چیف جسٹس آئے، پانچ سال رہنے والا اتنا پاور فل چیف جسٹس، شاید پھر نہ آئے، مقتدر جسٹس، پاکستان کی قسمت شاید اتنی نہ ہو کہ ایسا چیف جسٹس ملے، مستقبل قریب میں تو ایسا بالکل نظر نہیں آتا۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ ساری عمر عوامی مفاد کے لیے مقدمات لڑے، سابق چیف جسٹس کے وکیل بھی اسی لیے بنے، ساری زندگی میری عوامی مفاد کے کیسز لڑتے ہوئے ہی گزری، چیف جسٹس کا کیس بھی عوامی مفاد کی خاطر ہی لڑا تھا، آئندہ بھی کسی کی ایسی پکار آئی تو پہنچ جاوٴں گا۔ اعتزا احسن کی اہلیہ بشریٰ اعتزاز کہتی ہیں کہ ان کے شوہر کے لیے وکالت نہ کرنا ایسا ہی تھا جیسے سانس نہ لینا، ایک بڑی سزا تھی اعتزاز کے لیے، اس دوران ان کی صحت بھی بہت ایفیکٹ ہوئی۔ بیرسٹر اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ انہوں نے ساری عمر اصولوں کی وکالت اور سیاست کی، حق پر ڈٹے رہے، جس کی وجہ سے نقصان بھی اٹھائے مگر اپنی عزت پر آنچ نہیں آنے دی۔