01 نومبر ، 2014
اسلام آباد...........چھ سال ہوگئے، ایف بی آر اور مقامی کمپنی کا ٹیکس تنازع معمہ بن گیا۔ ایف سی کی 113فور بائی فور گاڑیاں اب تک کلیئر نہ ہوسکیں۔ایک طرف تو پاکستانی قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں صف آرا تو دوسری طرف ایف سی کی 113فور بائی فور گاڑیاں 2008ء سے اب تک کلیئر نہیں ہوسکی ہیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور مقامی کمپنی کے درمیان ٹیکس کا معاملہ، معمہ بناہوا ہے اور نقصان ایف سی اور عوام اٹھا رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا صف اول میں بر سرپیکار پاکستان، ہر دن اور ہر لمحہ پاکستانی عوام، فوج، قانون نافد کرنے والے ادارے اور معیشت اس جنگ کے نقصانات بھگت رہے ہیں۔ 100ارب ڈالر سےزائد کا نقصان پاکستانی معیشت کو پہنچ چکا۔ یہ رقم پاکستان کے 67سال کے بیرونی قرضوں سے بھی 36ارب ڈالر زیادہ ہے۔ پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جہاں دہشت گردوں سے لڑنا ہے وہیں کم وسائل نے کئی چیلنجز اوربھی دے دیئے ہیں۔ ایف سی کی 113گاڑیوں کی کسٹم ڈیوٹی کا معاملہ، سرکاری فائلوں میں 6سال سے دبا ہے۔ ایف سی نے 2008ء میں 150گاڑیاں درآمد کی تھیں۔ کسٹم ڈیوٹی ادا کرکے صرف 37گاڑیاں ہی کلیئر ہوسکیں۔ گاڑیوں کی درآمد کے لیے مقامی کمپنی کی خدمات حاصل کی گئیں۔ ین کی قیمت بڑھنے سے گاڑیاں مہنگی ہوئیں اور کلیئرنس التوا ء کا شکار ہوئی۔ اب 113گاڑیوں پر 13کروڑ 80لاکھ روپے کی کسٹم ڈیوٹی واجب الاداہے اور کسٹم ڈیوٹی بروقت ادا نہ ہونے سے ایک کروڑ 80لاکھ روپے کا جرمانہ بھی ہے۔ چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو طارق باجوہ کہتے ہیں کہ ملک کو ٹیکس کی ضرورت ہے ان گاڑیوں پر ٹیکس معاف نہیں کرسکتے، اگر ایسا کیا تو باقی ادارے بھی ٹیکس معاف کرانے پہنچ جائیں گے جبکہ ذرائع کہتے ہیں کہ اس کے برعکس اسی سال مئی میں انٹیلی جنس بیورو کی دو گاڑیوں کا کروڑوں کا ٹیکس معاف کیا گیا تھا۔ یہ گاڑیاں وزیر اعظم سیکریٹریٹ کے لیے آئی بی نے 11کروڑ روپے میں خریدیں اور ان پر 12کروڑ 49لاکھ روپے کے ٹیکس اور خرچے معاف کردیئے گئے تھے۔ وی وی آئی پیز کے لیے تو گاڑیوں کا ٹیکس ایک سال میں ہی معاف ہوجاتاہے اور دہشت گردی کے خلاف مصروف عمل جوانوں کے لیے گاڑیاں 6سال تک سرخ فیتےکی نذررہناکافی معنی خیز ہے۔