13 اکتوبر ، 2015
کراچی …مشاق احمد سبحانی … بالی ووڈ کے سدابہار سپراسٹار امیتابھ بچن ہندوستانی فلمی صنعت کی تاریخ کے عظیم اداکاروں میں سے ایک ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے 73سال مکمل کر چکے ہیں اوراس پیرانہ سالی میں بھی کروڑوں فلمی شائقین کے دلوں پر راج کررہے ہیں،ان کا 45سالہ فلمی کیرئیرکامیابیوں اور کامرانیوں سے بھرپور رہا ہے۔
امیتابھ بچن 11 اکتوبر 1942 ء کو ریاست اترپردیش کے شہر الہ آبادمیں پیدا ہوئے۔انہوں نے نینی تال اور دہلی میں تعلیم حا صل کی۔ پھر والدہ کی خواہش پر فلموں میں اداکاری کا فیصلہ کیا تاہم اداکاری سے پہلے 1969ء میں فلم ”بھون شومے“کے لئے صداکاری کی اور پھراسی سال خواجہ احمد عبّاس کی فلم ”سات ہندوستانی“ سے اداکاری کا آغاز کیا۔ انہیں اس فلم میں بہترین ”نو وارد اداکار“ کے نیشنل ایوارڈ سے نوازا گیا۔
امیتابھ کی اگلی فلم 1971ء میں ریلیز ہونے والی”آنند“ تھی جس میں ان کی اداکاری کو بے حد سراہا گیا اور انہیں بہترین معاون اداکار کی حیثیت سے” فلم فیئر“ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اسی سال ان کی ایک اور فلم ”پروانہ “ریلیز ہوئی۔اس کے بعد آئی”ریشماں اور شیرا“۔ اس میں بھی انہوں نے شاندار کردار نگاری کا مظاہرہ کیا۔
1972ء میں امیتابھ نے ایک مزاحیہ فلم ”بمبئی ٹو گوا“ میں اداکاری کی۔یہ وہ دور تھا جب ان کی کئی فلمیں آگے پیچھے فلاپ ہوئیں مگروہ ہمت نہیں ہارے اور مسلسل کام کرتے رہے۔
سن 1973ء میں ہد ایت کار پرکاش مہرہ کی فلم ”زنجیر“میں انہوں نے انسپکٹر کا کردار ادا کیا جس میں انہیں بیحد پسند کیا گیا۔ اس فلم سے امیتابھ بچن کا ایک نیا اندازسامنے آیا۔ یہ ایک ’ناراض نوجوان“ ‘کا یعنی اینگری ینگ مین۔اس فلم کو باکس آفس پر بھاری کامیابی ملی اور امیتابھ بالی ووڈ اسٹار بن گئے۔
یہ سال امیتابھ کے لئے بے حد اہمیت کا حامل تھا۔ اس سال مشہوراداکارہ جیا بہادری سے ان کی شادی ہوگئی اور اس دوران میں دونوں نے کئی فلموں میں اکٹّھے کام کیا جن میں ”ابھیمان“ بھی شامل تھی۔ یہ فلم بھی باکس آفس پر بہت کامیاب رہی۔
بعد میں امیتابھ نے فلم ”نمک حرام“میں زبردست اداکاری کا مظاہرہ کیاجس پر انہیں بہترین معاون اداکار کا دوسرا فلم فیئرایوارڈ دیا گیا۔ 1974ء میں ”روٹی کپڑا اور مکان“اور ”مجبور“ میں بھی وہ کامیاب رہے۔
سن 1975ء میں امیتابھ نے مزاحیہ فلم”چوری چوری“، کرائم ڈرامہ”فرار“ سے لے کر رومانی فلم ”ملی“تک مختلف النوع کردار ادا کئے۔ اس سال ان کی دوفلمیں ہندی سنیما کی تاریخ میں نہا یت اہمیت کی حامل قرار دی گئیں۔ ایک تو ”دیوار“ تھی جو باکس آفس پر کامیابی کے نئے ریکارڈ بنانے میں کامیاب ہوئی۔
دوسری فلم ”شعلے“ تھی جو تمام وقتوں کی بہترین ہندوستانی فلم ثابت ہوئی۔دونوں میں امیتابھ نے بہترین اداکاری کا مظاہرہ کیا۔اس فلم نے جو ریکارڈ بنائے وہ آج بھی نہیں توٹ سکے۔
1976ء میں ریلیز ہونے والی یش چوپڑہ کی فلم ”کبھی کبھی“ میں امیتابھ نے رومینٹک ہیرو کا کردار ادا کیا جو ان کے ’اینگری ینگ مین‘ کے کرداروں سے بالکل مختلف تھا۔ ان کی اس تبدیلی کو ناقدین اور شائقین کی جانب سے بیحد پذیرائی ملی۔
اسی سال امیتابھ فلم ”عدالت“ میں باپ اور بیٹے کے دوہرے کردار میں نظر آئے۔ اگلے سال انہوں نے فلم ”امر اکبر انتھونی “ میں شاندار اداکاری پر پہلی مرتبہ بہترین اداکار کا فلم فیئر ایورڈ حاصل کیا۔ اس سال ریلیز ہونے والی دیگر فلموں میں”پرورش“ اور ”خون پسینہ“ بھی کامیاب رہیں۔
سن 1978ء میں ایک بار پھرامیتابھ نے دو فلموں ”قسمیں وعدے“ اور” ڈان“ میں دوہرے کردار ادا کئے۔ ”ڈان“نے انہیں بہترین اداکار کا مسلسل دوسرا فلم فیئر ایوارڈ دلایا۔اس کے علاوہ انہوں نے ”ترشول“ اور ”مقدّر کا سکندر“میں بھی بہترین اداکاری کی۔
اگلے سال 1979ء میں امیتابھ کی چار فلمیں ”سہاگ“، ”مسٹر نٹور لعل“،”کالا پتھر“ اور ”دی گریٹ گیمبلر“ ریلیز ہوئیں اور سبھی کامیاب رہیں۔پہلی مرتبہ امیتابھ نے اپنی آواز میں گانا ریکارڈ کرایا جو فلم ”مسٹر نٹور لعل“ میں انہی پر عکس بند کیا گیا۔یہ گانا نہ صرف یہ کہ مقبول ہوا بلکہ اس پر انہیں سال کے بہترین مرد گلوکار کے فلم فیئر ایورڈکے لئے بھی نامزد کیا گیا۔
اگلے سال یعنی 1980ء میں ریلیز ہونے والی امیتابھ کی فلموں میں ”دوستانہ“، ”شان“ اور ”رام بلرام“بھی بیحد کامیاب رہیں۔ 1981ء میں وہ فلم ”سلسلہ“ میں ریکھا اور اپنی اہلیہ جیا کے ہمراہ جلوہ گر ہوئے۔اس سال ان کی دو اور فلمیں ”نصیب“ اور ”لاوارث“بھی کامیاب ہوئیں۔
1982ء میں امیتابھ کو فلم ”شکتی“میں عظیم اداکار دلیپ کمار کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا مگر یہ فلم باکس آفس پرکامیا ب نہ ہوسکی۔اسی سال انہوں نے ”ستّے پر ستّہ“ اور ”دیش پریمی“میں دوہرے کردار ادا کئے ۔ 1983ء میں فلم ”مہان“میں ٹرپل کردار ادا کیا۔
اس سال ریلیز ہونے والی ایک اور فلم ”قلی“میں بھی ان کی اداکاری کو بیحد سراہا گیا۔اسی فلم کی عکس بندی کے دوران وہ لڑائی کا ایک منظر فلماتے ہوئے شدید زخمی ہوگئے اور کئی ماہ تک اسپتال میں زیرِعلاج رہے۔ اس شدید علالت نے انہیں ذہنی اور جسمانی طور پرکمزور کردیا تھا لہٰذ انہوں نے فلمی دنیا کو خیر باد کہہ کر سیاست میں حصّہ لینے کا فیصلہ کیا۔
سن 1984ء میں وہ اپنے دیرینہ دوست راجیو گاندھی کی مدد کے لئے سیاست کے میدان میں داخل ہوئے اور الہ آباد سے لوک سبھا کی نشست پر انتخاب لڑ کر کامیاب ہوئے۔انہوں نے بھارت کے عام انتخابات کی تاریخ میں سب سے بڑے مارجن سے ووٹ لے کر ریکارڈ قائم کیا۔تاہم ان کا سیاسی کیرئیر بے حد مختصر رہا اور وہ صرف تین سال بعد 1987ء میں بالی ووڈ میں واپس آگئے۔
سن 1988ء میں امیتابھ نے فلم ”شہنشاہ“میں ٹائٹل رول ادا کیا۔ یہ فلم باکس آفس پر کامیاب رہی مگر اس کے بعد 1989ء میں ریلیز ہونے والی فلمیں ”جادوگر“،”طوفان“ اور ”میں آزاد ہوں“ ناکامی سے دوچار ہوئیں۔تاہم1990ء میں ”اگنی پتھ“کامیاب ہوئی۔اس میں انہوں نے ایک مافیا ڈان کا کردار ادا کیاتھا جس پر انہیں بطوربہترین اداکارپہلی مرتبہ نیشنل فلم ایوارڈ دیا گیا۔ اگلے سال ان کی ایک اور فلم ”ہم“کامیاب ہوئی جس میں انہوں نے اپنی کارکردگی پر بہترین اداکار کا تیسرا فلم فیئر ایوارڈ وصول کیا۔
سن 1992ء میں ”خداگواہ“کے ریلیز ہونے کے بعد امیتابھ نے ریٹائرمنٹ لے لی جو پانچ سال جاری رہی تاہم اس دوران ایک فلم ”انسانیت“ نمائش پذیر ہوئی جو باکس آفس پر ناکام رہی۔پھر انہوں نے اداکاری چھوڑ دی اور 1996ء میں اپنی ذاتی کمپنی اے بی سی ایل یعنی امیتابھ بچن کارپوریشنز لمیٹڈ قائم کی جس کے تحت فلمیں بنانے لگے مگر کامیاب نہ ہوسکے۔
سن1997ء میں انہوں نے اپنی کمپنی کی فلم ”مِرتیوداتا“ میں اداکاری کرکے فلمی دنیا میں واپس آنے کی کوشش کی مگر یہ فلم بری طرح ناکام ہوئی۔اس کے ساتھ ہی ان کی کمپنی بھی دیوالیہ ہوگئی۔اب امیتابھ نے فلموں میں اداکاری کے کیرئیر کو بحال کرنے کی کوشش کی۔1998ء میں ان کی فلم ”بڑے میاں چھوٹے میاں“ نے اوسط درجے کا کاروبار کیا۔1999ء میں ریلیز ہونے والی فلم ”سوریاونشم“ میں ان کے کردار کو بیحد سراہا گیا مگر دیگر فلمیں ”لال بادشاہ“ اور ”ہندوستان کی قسم“باکس آفس پر ناکام رہیں۔
تاہم2000ء سے امیتابھ بچن ایک بار پھر عروج کی جانب گا مزن ہوئے۔فلم ”محبّتیں“میں اولڈ کیریکٹرادا کیا جس پر انہیں بہترین معاون اداکارکا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔اب وہ متنوع قسم کے اولڈکرداربیحدکامیابی سے کرنے لگے۔ فلم ”ایک رشتہ“(2001 )، ”کبھی خوشی کبھی غم“(2001 )،”عکس“(2001 )،”آنکھیں“(2002 )،”باغبان“(2003 )، ”خاکی“(2004 ) اور ”دیو“(2004 ) اس کی بہترین مثالیں ہیں۔
سن 2005 میں فلم ”بلیک“ریلیز ہوئی جس میں امیتابھ نے ایک بہری گونگی لڑکی کے عمر رسیدہ استاد کا پیچیدہ کردار نہایت خوبصورتی سے ادا کیا۔اس پر انہیں بہترین اداکار کا دوسرا نیشنل فلم ایوارڈ اورچوتھا فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ پھر انہوں نے”بنٹی اور ببلی“(2005 )،”سرکار“(2005ء ) اور”کبھی الوداع نہ کہنا“(2006 ) میں کام کیااور تینوں فلمیں باکس آفس پر کامیاب ہوئیں۔
ان کی بعد میں ریلیز ہونے والی فلمیں ”بابل“،”اکالاویا“اور ”نشبد“ اگرچہ ناکام ہوئیں مگر امیتابھ کی اداکاری کو بیحد پذیرائی ملی۔ 2007ء میں ”چینی کم“نے اوسط درجے کا بزنس کیا اور ”شوٹ آوٴٹ ایٹ لوکھنڈوالا“ سپر ہٹ رہی جبکہ ”رام گوپال ورما کی آگ“ ناکام ہوئی۔ اسی سال امیتابھ نے ایک انگریزی زبان میں بنائی گئی فلم ”دی لاسٹ لیئر“ میں کام کیا جس کو اندرون و بیرونِ ملک بے حد سراہا گیا۔ اگلے سال انہوں نے ”بھوت ناتھ“ میں بھوت کا ٹائٹل رول کیا۔
سن 2009ء میں فلم ”پا“ ریلیز ہوئی جس میں انہوں نے ایک تیرہ سالہ معذور لڑکے کا کردار نہایت خوبی سے ادا کیا جس پر انہیں بہترین اداکار کا تیسرا نیشنل فلم ایوارڈ اورفلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔
سن 2010 میں انہوں نے پہلی مرتبہ ایک ملیالم فلم میں کام کیا۔ پھر 2013 میں پہلی بار ہالی ووڈ کی ایک فلم ”دی گریٹ گیٹسبی“میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔
دو روز قبل 11اکتوبر کو امیتابھ بچن نے اپنی73ویں سالگرہ منائی ہے۔ وہ اب بھی نہایت فعال زندگی گزار رہے ہیں۔انہوں نے فلموں کے علاوہ ٹیلیویژن پر بھی متعدد کامیاب پروگرام کئے ہیں۔ وہ اشتہاروں میں ماڈلنگ کرنے کے علاوہ مختلف اشیاء اور خدمات کے اداروں کے برانڈ ایمبیسیڈر بھی رہے ہیں۔وہ کئی سماجی اور رفاہی سرگرمیوں میں بھی مصروف رہتے ہیں۔درجن بھر فلم فیئر ایوارڈ ز، تین نیشنل فلم ایوارڈ زاور بے شمار دیگر ایوارڈ ز، اعزازات و انعامات حاصل کرچکے ہیں۔
بھارتی حکومت ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں پدما شری، پدما بھوشن اور پدما وبھوشن کے اعزازات سے نواز چکی ہے۔