24 فروری ، 2016
نئی دلّی......فاضل جمیلی......اُردو کی مٹھاس شاعری، موسیقی، فلم، ناٹک اور مکالمے کے ذریعے آپ تک پہنچی ہے تو یقینی طور پر آپ اس نعمت کے حصول میں وسیلہ بننے والی شخصیات کو قریب سے دیکھنا اور سننا چاہیں گے۔اگر آپ کو ایک ہی پر مقام اپنے اپنے شعبے کی ساری شخصیات ایک ساتھ مل جائیں تو آپ اپنے کو ایک ایسی ضیافت میں مدعو پائیں گے جہاں آپ کے سامنے طرح طرح کے کھاجے چن دیے گئے ہوں اور آپ سوچنے پر مجبور ہو جائیں کہ کوئی ایک ذائقہ بھی ’’سیلفی‘‘ بنانے سے رہ نہ جائے۔
نیودہلی میں ہونے والے ’’جشنِ ریختہ‘‘ میں کچھ ایسا ہی اہتمام تھا۔ایک طرف گلزاراُردو سے محبت کے قصے سنا رہے تھے تو دوسری طرف انورمقصود غالب اور میرکو یاد کرتے ہوئے دلی کے بار بار اجڑنے کو کچھ اس انداز میں بیان کر رہے تھے کہ ہنسی ہنسی میں رلانے کی شام ہو جیسے۔جاوید اختر اور شبانہ اعظمی ’’کیفی اورمیں‘‘کے روپ میں الگ مجمع جمائے بیٹھے تھے۔نندیتا داس منٹو کو یاد کرتی پھر رہی تھیں اور اُستاد رفاقت علی خان اپنی آواز کا جادو جگا رہے تھے۔
ایک نشست ایسی بھی تھی جس میں دھوپ چھائوں کا احساس ایک ساتھ نمایاں تھا۔شکیل عادل زادہ نے’’سب رنگ‘‘ کے سنورتے بکھرتے رنگوں کی روداد سنا ئی تو شاہد رسام نے اسد محمد خان سے پوچھ لیاکہ آپ کو کہانی کہاں ملی؟ اسدمحمود خاں نے اپنی مشہورِ زمانہ کہانی ’’باسودے کی مریم‘‘ سنانا شروع کی توفروری کی تیز دھوپ میں حاضرین کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے۔ اس کے بعد بادل کا ایک ٹکڑا گزرا جس میں سے انور مسعود کا چہرہ نمودار ہوا اور انہوں نے اپنی نظمیں ’’بنیان‘‘ اور ’’جہلم کا پل‘‘سنا کر محفل کو زعفرانِ زار بنادیا۔
فلموں میں اُردو کے عنوان سے ایک گفتگو میں جاوید صدیقی، جاوید اختر اور امتیاز علی شریک تھے۔ جاوید صدیقی کہہ رہے تھے کہ کسی فلم کی کوئی زبان نہیں ہوتی، زبان تو کرداروں کی ہوتی ہے، وہ ہندی بولیں تو ہندی، اُردو بولیں تو اُردو، زبان تو گانوں میں دکھائی دیتی ہے، وفا، صنم جیسے لفظوں کے بنا آج بھی گانے نہیں لکھے جاتے، اُردو کاچلن آج بھی تمام تر پروپیگنڈے کے باوجود یہی ہے کہ یہ عوام کی زبان ہے، فلمیں بھی ہم عوام ہی کے لیے بناتے ہیں ،کشمیر سے کنہیاکماری تک آج بھی اُردو اپنا پیغام ہر جگہ پہنچا دیتی ہے۔
امتیازعلی نے گفتگو کا آغاز کیا تو ماضی کے دھندلکوں میں کھو گئے، جیسے خودکلامی کر رہے ہوں۔ کہنے لگے کہ تب اُردو شاعری کارواج تھا،بچپن میں گھر میں بیگم اختر سنتے تھے، اس لیے آج بھی وہی جھلکتا ہے، میں انگلش لٹریچر کا طالبعلم ہوں، میںنےاس زبان میں بھی شاعری پڑھی ہے،مجھےکیٹس، بائرن بہت پسند ہیں لیکن اُردو میں جب میں شاعری سنتا ہوں تو ایسا لگتا ہے فیض میرے پہلو میں کھڑے ہوں اور میرے لیے بول رہے ہوں، ایسی چھاپ صرف اپنی زبان ہی کی ہو سکتی ہے۔
جاوید اختر کا کہنا تھا کہ اپنی زبان میں دال چاول کا سکون ملتا ہے، آپ چاہے جتنی بھی مغربی موسیقی سن لیںلیکن جب ڈھولک بجے گی تو لگے گا کہ ڈی این اے میں ہے،لگے گا کہ گھر آ گئے۔ اس گفتگو سے ہٹ کر ایک کھلے پنڈال میں ’’غالب کے خطوط‘‘ پر مبنی کھیل پیش کرنے کے لیے ٹام آلٹر موجود تھے۔کھیل سے پہلے انہوں نے اُردو سے اپنی محبت کو ان الفاظ میں بیان کیا کہ کہ اگر اُردو زبان مر رہی ہے تو میں بھی اسی انداز میں مرنا چاہوں گا۔
جیلانی بانو اور زاہدہ حنا ایک اور نشست میں عصمت چغتائی کو یاد کر رہی تھیں۔ جیلانی بانونے انہیں رشید جہاں کے بعد ہندوستان کی دوسری بڑی باغی عورت قراردیا لیکن زاہدہ حنا کے خیال میں وہ اتنی باغی بھی نہیں تھیں ،اپنے شوہر کی وجہ سے انہوں نے اونچی ایڑھی کے جوتے پہننا چھوڑ دیئے تھے کہ وہ ان سے قدآور نہ دکھائی دیں، جب ان پر لاہور کی ایک عدالت میں مقدمہ چلا تو شاہد لطیف نے انہیں طلاق کی دھمکی دی تھی جس کے بعد انہوں نے عصمت چغتائی کے بجائے عصمت لطیف کے نام سے کئی کہانیاں لکھیں۔
منٹو کا ذکر آیا تو حال ہی میں ’’منٹو‘‘ فلم سے شہرت حاصل کرنے والے پاکستانی اداکارسرمدکھوسٹ نے برجستہ کہا کہ اگر آج منٹو زندہ ہوتے تو نہ صرف ان پر فحاشی کا الزام لگتا بلکہ ملک دشمنی اور بغاوت کےالزام میں بھی پکڑے جاتے۔ اس پر حاضرین نے ایک زوردار قہقہہ لگایا اور ایک آواز آئی ’’ویسے بھی ان دنوں بغاوتوں کا موسم ہے‘‘۔ہلکی پھلکی گفتگو کے بعد چچا سام کے نام منٹو کے خطوط پڑھ کر سنائے گئے تو لگا پچاس سال گزر جانے کے باوجود کچھ بھی نہیں بدلا۔ ’’منٹو‘‘ فلم میں صفیہ کا کرداراداکرنے والی ثانیہ سعید بھی وہاں موجود تھیں۔
رات ذرا بھیگی تو مشاعرے کا پنڈال سج چکا تھا جس میں ہندوستان اور پاکستان کے صرف دس شاعرمحمد علوی، انورمسعود، عباس تابش، خوشبیر سنگھ شاد، فاضل جمیلی،شارق کیفی، راجیش ریڈی، شمیم عباس، کاشف رضا اور منیش شکلا شریک تھے اور سامنے ہزاروں کا مجمع تھا۔ کاشف رضا کا خیال تھا کہ قوالی کے بعد مشاعرہ اپنا رنگ نہیں جماپائے گا، قوالی پر دھمالیں ڈالنے والے سامعین کسی شاعر کو کیا داد دیں گے لیکن سامعین نے تو ہر شاعر کو ایسی داد دی کہ وہ خود کو مشاعرے کا فاتح سمجھ کر اٹھا۔
تین دن تک جاری رہنے والے ’’جشن ِ ریختہ‘‘ نے دہلی کو ایک بار پھر اُردو تہذیب سے جوڑنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس ادبی میلے کے روح ِ رواں سنجیوصراف پرعزم دکھائی دیے کہ وہ لوگوں کو اس حقیقت کو ماننے پر مجبور کردیں گے کہ ملک تو تقسیم ہو سکتے ہیں لیکن کسی زبان کا بٹوارہ نہیں ہو سکتا، اُردو پاکستان یا مسلمانوں ہی کی نہیں ہندوستان کی بھی زبان ہے اور ریختہ کے پلیٹ فارم سے اس کے فروغ کی کوششیں جاری رہیں گی۔
دلّی میں منایا گیا اُردو کا جشن