بلاگ
03 اکتوبر ، 2016

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

موجودہ دور بجاطور پر جدید ٹیکنالوجی کے عروج کا دور ہے۔ حیرت انگیز ایجادات اتنی تیزی سے ظہور پذیر ہو رہی ہیں کہ عقل حیران و پریشان ہے۔ ہمارے بزرگوں کے زمانے میں ریڈیو ایک زبردست ذریعہ ابلاغ تھا جو تفریح بھی فراہم کرتا تھا اور خبریں بھی۔

پھر ٹیلی ویژن نے آکر گویا ”وہ آیا‘ اُس نے دیکھا اور فتح کر لیا“ کے مصداق میلہ ہی لوٹ لیا۔ ٹیلی ویژن تک ہی بات نہ ٹھہری وی سی آر‘ ڈش کلچر اور کیبل ٹی وی نے معاشرے کا چلن ہی بدل کر رکھ دیا لیکن کیا معاملہ یہیں تک رہا؟

ہرگز نہیں انٹرنیٹ کی آمد نے انسانی تاریخ کا دھارا ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ ’جام جم‘ کے متعلق صرف سنا تھا‘ ’طلسم ہوش رُبا‘ فقط ایک داستان تھی لیکن اب ایک حقیقت ہے۔’انٹرنیٹ کا جام جم‘ اب ہمارے ہاتھوں میں ننھے منے موبائل فونز کی صورت میں موجود ہے۔ پلک جھپکنے میں ہم ہزاروں میل کی دوری کو طے کر سکتے ہیں۔ انٹرنیٹ نے ہر چیز کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

خط کا تصور بھی نئی نسل کے لئے گویا ایک عجیب سی بات ہے‘ ای میل نے سارے مسئلے حل کر دیئے۔ ای لرنگ‘ ای کامرس اور نہ جانے کیا کیا۔

ہمارے زمانے کی محبت جو کئی ماہ و سال لے لیتی تھی‘ اب ایس ایم ایس اور ایم ایم ایس کی صورت میں گویا مزاق ہی لگتی ہے۔ ہماری نئی نسل ہمارا مذاق اُڑانے میں حق بجانب نظر آتی ہے۔یہ دور ابلاغ عامہ کا دور ہے‘ نئی نئی ایجادات ہر روز اس کی ایک نئی سمت متعین کر رہی ہیں۔ دنیا گویا ایک مٹھی میں سمٹ آئی ہے‘ انٹرنیٹ کی لامحدود وسعت موبائل فون کی سکرین پر ملاحظہ کی جا سکتی ہے اور ابھی اس کی انتہا کیا ہے کوئی نہیں جانتا۔

الیکٹرانک میڈیا نے گویا ہر شے کو بدل کر رکھ دیا ہے‘ ماضی کے خوبصورت نرم لہجوں میں اب حلاوت اور شیرینی ختم ہو چکی ہے‘ ہر معاملے میں مادیت پرستی ہے۔ اقدار دم توڑ رہی ہیں‘ خلوص و محبت کی جگہ خودغرضی اور نام نہاد تیز رفتاری نے لے لی ہے لیکن انسان کو ان سب سے حاصل کیا ہوا‘ معلومات کا بیش بہا خزانہ تو مل گیا لیکن سکون و اطمینان ختم ہو گیا۔ کیا اسی نفسانفسی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے لئے حضرت انسان نے یہ سب جتن کئے؟ لیکن ہم یہ سب نہیں سوچتے۔

ابلاغ عامہ کو نئی وسعتوں سے روشناس ضرور کروا دیا گیا ہے لیکن اپنی زبردست اقدار کو دفن کر کے انسانی نفس نے خودغرضی کی مٹی ڈال دی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان ہمیں ہوا ہے۔ کہتے ہیں ”ہر انفارمیشن ہر ایک کے لئے نہیں ہوتی‘ اگر اس طرح ہو جائے تو بگاڑ پیدا ہوتا ہے“ کیونکہ علم کی تخصیص ضروری ہے‘ عمر بڑھنے کے ساتھ علم کا بڑھنا ضروری ہے۔

علم دراصل ایک روشنی کی مانند ہے‘ ایک نور ہے جو اندھیرے کو ختم کرتا ہے‘ اُجالا لاتا ہے لیکن کیا رات کو بھی سورج کی روشنی ہمیں بھلی لگے گی؟ سورج کی روشنی کا ایک وقت معین ہے پھر وہ دھیرے دھیرے بڑھتی ہے خوبصورتی کے ساتھ ساتھ دن کے سفر کا آغاز ہوتا ہے‘ عروج ہوتا ہے اور پھر زوال ہوتا ہے‘ روشنی مدہم ہوتی چلی جاتی ہے اور آخرکار ختم ہو جاتی ہے۔

علم بھی دھیرے دھیرے انسان کے مزاج‘ طبیعت اور عمر میں تبدیلی لاتا ہے‘ روشنی اُس میں تغیر پیدا کرتی ہے‘ ذہانت کا عروج ہوتا ہے اور آخرکار انسان اپنی ابدی منزل کی طرف بڑھ جاتا ہے جس کے متعلق دانائے راز علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں:موت کو سمجھے ہیں غافل اختتام زندگی ہے۔ یہ شام زندگی‘ صبح دوام زندگی پاکستان کو یوتھ کی تعداد کے اعتبار سے خوش قسمت ملک تصور کیا جاتا ہے کیونکہ ملک کی کل آبادی کا ایک بڑا حصہ یعنی 25 ملین نوجوانوں پر مشتمل ہے۔

ا یک اندازے کے مطابق پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ایک سیمینار میں پیش کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 20 کروڑ آبادی والے اس ملک میں تقریباً 60 فیصد نوجوان ہیں جنِ کی عمریں 15 سے 24 سال کے درمیان ہیں جبکہ 18 سے 29 سال کی عمر والے 5 کروڑ نوجوانوں میں 55 فیصد شہروں میں رہتے ہیں اور پڑھے لکھے نوجوان تقریباً 58 سے 60 فیصد ہیں۔

پاکستان کے نوجوان کی ذمہ داری اس حوالے سے بھی دوچند ہو جاتی ہے کہ وہ کل آبادی کا دو تہائی ہیں۔ انہیں معاشی، سیاسی اور سماجی ترقی کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرنا ہے۔ منفرد اور باصلاحیت نوجوانوں کے جوش اور ولولے کو اگر درست سمت مل جائے تو وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کا شمار دنیا کی با عزت اور آبرو مند اقوام میں ہو گا کسی کی جرات نہیں ہو گی کہ وہ پاکستان کو میلی آنکھ سے بھی دیکھے۔

میرا یقین ہے کہ پاکستان کے پاس یہ ایک موقع ہے جو ایک نسل میں ملنے والا واحد موقع ہوتا ہے کہ وہ خود کو ایک ایسے ملک میں ڈھال سکے جو اس کی عوام چاہتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ پاکستان کے نوجوان پاکستان کے اس تصور کے بارے میں وہ وسیع تر سوچ اپنائیں گے جو اس کے بانیان چاہتے تھے اور وہ 2047ء تک جب پاکستان اپنے قیام کے 100 سال اللہ کی رحمت سے مکمل کر چکا ہو گا اسے بلندیوں کے اس مقام تک لے جائیں گے جہاں دنیا رشک کرے گی ۔۔۔

۔۔اور یہ آج کا نوجوان ہی کر سکتا ہے کیونکہ آج اس کے پاس وہ وسائل موجود ہیں کہ جس سے وہ بلاشبہ ستاروں پہ کمند ڈال سکتا ہے.سن 2047 پاکستان کی تخلیق کا 100 واں سال ہوگا اور یہ وہ وقت ہوگا جب آج کے نوجوان پاکستان کی قیادت کررہے ہوں گے۔