خصوصی رپورٹس
08 اکتوبر ، 2016

اکتوبرکا خوفناک زلزلہ ،لازوال جذبہ

اکتوبرکا خوفناک زلزلہ ،لازوال جذبہ

 

عابد حسین شاہ...8 اکتوبر 2005 آزاد کشمیر میں7اعشاریہ3 کی شدت سے آنے والے خوفناک زلزلے نے ہر طرف تباہی مچا دی تھی۔ عمارتوں کا ملبہ اور اس کے مکینوں کی لاشیں ہر طرف بکھری پڑی تھیں – چیخوں اور سسکیوں کی آوازوں کے سوا کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ ایک لمحے میں ہزاروں ہنستے بستے گھر اجڑ چکے تھے – جو اس دنیا سے گزر گئے وہ زندگی کی تلخیوں سے آزاد ہو چکے تھے لیکن جو بچ گئے، زندگی ان لیے موت سے بد تر ہو گئی تھی۔

ہزاروں معصوم بلکتے بچے ماں باپ کی شفقت سے محروم اور بے سہارا ہو گئے تھے، ان کے لیے وقت گزارے نہیں گزرتا تھا، وہ بھوک اور پیاس بھول کر اپنے ماں باپ کو تلاش کر رہے تھے، کھلے آسمان تلے، بے سروسامانی کا عالم اور اس پر سرد موسم اور بارش، کیا تھا جو ان کی مشکلات میں اضافہ نہیں کر رہا تھا، ان کی زندگی میں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا، ان کی پتھرائی ہوئی آنکھیں کسی مسیحا کو تلاش کر رہی تھیں، جو ان کے زخموں پر مرہم رکھ سکے، سسکتی زندگی میں امید کی کرن ہو، رات کی تاریکی ان بچوں کے لیے ہولناک تھی، کہیں کو ئی ہلکی سی سرسراہٹ بھی ان کو سہما رہی تھی، ڈر اور خوف کے عالم میں ایک دوسرے کا سہارہ تھے، ان کی آنکھوں کے آنسو بھی خشک ہو چکے تھے۔

ابتدا میں زلزلے سے ہونے والی تباہی کا اندزہ کسی کو نہیں تھا، جیسے جیسے وقت گذر رہا تھا زلزلے کی ہولناک تباہی کی اطلاعات آ رہی تھیں، مظفر آباد، باغ اور آلائی سمیت کئی اضلاع زمین کے اندر دھنس چکے تھے، تقریبا تمام عمارتیں زمیں بوس ہو چکے تھے، زلزلے سے ہونے والی تباہی کی خبریں جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی تھیں، زلزلے نے دشوار گزار راستوں کو مزید مشکل کر دیا تھا، سب سے پہلے پاک فوج کے جوان سامان لے کر امداد کے لیے پہنچے، جبکہ ملکی اور غیر ملکی رضا کار تنظیمیں، رفاہی ادارے اور میڈیا ٹیمیں غرض سب کی کوشش تھی کہ جلد سے جلد وہاں پہنچا جائے، تباہی اس قدر زیادہ تھی کہ کسی ایک ادارے یا تنظیم کے لیے تن تنہا امداد پہنچانا ممکن نہیں تھا، لیکن یتیم اور بے سہارا بچوں کے لیے زندگی نہایت دشوار ہو چکی تھی۔

زلزلے سے باغ شہر میں سب سے زیادہ تباہی ہوئی، پورا شہر ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا تھا، امدادی ٹیموں کے ساتھ ساتھ میرپور آزاد کشمیر کا رہائشی چودھری اختر بھی مدد کرنے باغ شہر پہنچا، وہاں اس کی نظر بھوک اور پیاس سے نڈھال بھٹکتے بچوں پر پڑی، اس نے قریب جا کر ان بچوں سے بات کرنا چاہی، وہ معصوم خوف سے لرز رہے تھے، اپنے والدین اور دیگر رشتہ داروں کو آوازیں دے رہے تھے، وہ ایسے مدہوش تھے کہ انہیں چودھری اختر کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، اختر بھی بچوں کے ساتھ ان کے والدین کی تلاش میں لگ گیا، وہ ابھی ان بچوں کے والدین کو تلاش بھی نہیں کر پایا تھا کہ مزید کئی بچے اس کے نزدیک آ تے گئے، وہ بھی اپنے پیاروں کو تلاش کر رہے تھے، ہر طرف ملبے کے ڈھیر تھے، زندگی کے آثار کہیں نہیں تھے، کچھ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ کون سا گھر کس کا ہے، ایسے میں یہ بچے اپنا گھر کیسے تلاش کرتے ، بچوں کے والدین کی تلاش میں ناکامی کے بعد چودھری اختر ان بچوں کو لے کر ایک کیمپ میں آگیا، دن گزرتے گئے اور لاوارث بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا، چودھری اختر نے بتایا کہ"ریلیف کے دوران باغ شہر میں بہت سے ایسے بچے میری نظر میں آئےجو یتیم ہو چکے تھے،اور ان کےلئے کچھ کرنا تھا۔"

"میں 100 کے قریب یتیم اور لاوارث بچوں کو اپنے ہمراہ میرپور لے آیا۔ اللہ کا نام لے کر کرائے کی ایک عمارت میں ان بچوں کی رہائش، کھانے پینے اور دیگر ضروریات زندگی کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت کا بھی انتظام کیا،" مخیر حضرات کے ساتھ چودھری اختر نے زمین خریدی اور 46 ہزار اسکوئر فٹ پر تعمیر ات کا آغاز کیا ، "تعمیرات کے پہلے مر حلے میں عمارت کے تین فلور مکمل ہوچکے ہیں، جس مین98کلاس روم ہیں جبکہ ایک وقت میں چھ سو بچے کھانا کھا سکتے ہیں۔"

بچوں کا کہنا ہے کہ زلزلے نے جتنے دکھ دئیے وہ یہاں آکر سب بھول گئے ہیں۔ان بچوں میں سے ایک بچے کا کہنا ہے کہ "میرے والد2005ء میں آنےوالے زلزلے میں جاں بحق ہو ئےاور جب میں یہاں آیا تو پریپ میں تھا،اب میں دسویں جماعت کا طالب علم ہوں۔" ایک اور بچے نے بتایا کہ "یہاں رہتے ہوئے مجھے نو سال ہوچکے ہیں،میں یہاں بہت خوش ہوں۔ "

سینکڑوں بچوں کا یہ گھر آج میرپور آزادکشمیر کی پہچان بن چکا ہے۔ میرپور کے رہائشی اس گھر کو آباد رکھنے کے لئے سالانہ کروڑوں روپے کے عطیات دیتے ہیں۔
یہ لازوال جذبہ دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ جس معاشرے میں ایسے افراد ہوں انہیں دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔

مزید خبریں :