27 نومبر ، 2016
اس میں کوئی حیرانی نہیں کہ پاکستان کا اقتصادی مرکز کراچی جہاں دہشت گردوں کے نیٹ ورکس انتہائی خطرناک شکل اختیار کئے ہوئے ہیں، اب یہ غیر ملکیوں کی بھی آماجگاہ بن گیا ،جن کی تعداد 45؍ لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق ان میں پناہ گزیں افغان باشندے شامل نہیں ہیں، اس کے باوجود اقتدار کے ایوانوںمیں کوئی اس پرسنجیدہ ہے اور نہ ہی ’’منی پاکستان‘‘ کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئےآمادہ۔ بلکہ ان میں سے کئی تو کراچی کی قیمتی ار اضی پر نظریں گاڑے ہوئے ہیں۔
کراچی اب بھی نئے آرمی چیف کے لئے اتنے ہی بڑے چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے ،جتنا بڑا چیلنج وہ جنرل راحیل شریف کے لئے رہا ، ٹارگٹڈ ایکشن میں کامیابیوں کےباوجود ہم ابھی بنیادی مسائل کے حل سے دور ہیں، بدقسمتی سے سندھ اور وفاقی حکومتیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہیں۔ شہر میں 6؍ ہزار سے زائد کچی آبادیاں لاکھوں غیر رجسٹرڈ شہریوں کو پناہ فراہم کئے ہوئے ہیں، یہ ایک ایسا آتش فشاں ہے جو کسی بھی وقت پھٹ پڑے گا۔
کراچی میں کوئی انفرا اسٹرکچر نہیں، اگر تھا بھی تو قصہ پارینہ بن گیا، سرکلر ریلوے کی قیمتی زمین طاقت ور مافیاز کو فروخت کردی گئی، پانی اور بجلی کی چوری اور غیر قانونی فراہمی بھی مافیاز کے ہاتھوں میں ہے، دیر ہی سے صحیح لیکن یہ کہناغلط نہ ہوگا کہ اگر کراچی سے یہی سلوک جاری رہا تو اسٹریٹ کرائمز کے ساتھ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور جرائم پیشہ گروہوں کے ’’ طبقہ اولیٰ ‘‘ سے رابطے بھی بڑھیں گے، جن کا مقصد اجتماعی عوامی کے بجائے اپنے اور گروہی مفادات کو تحفظ دینا ہوتاہے۔
کراچی کے مسائل پیچیدہ ہیں شہر کو مختلف اداروں کی عمل داری میں تقسیم کردیا گیا ہے، شہر پر براہ راست کسی ایک کا مرکزی کنٹرول نہیں ہے، میئرپورے کراچی کا نہیں بلکہ شہر کا صرف 34 فیصد اس کے کنٹرول میں ہے، لہٰذا کوئی براہ راست ذمہ دار نہ ہونے کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والوں کی بھاری تعداد نے کراچی کا رخ کرلیا۔ 1998ء میں آخری مردم شماری کے بعد شہر کی آبادی ایک دیئے گئے فارمولے کی رو سے 37فیصد سالانہ کے تناسب سے بڑھی ہے۔
حکام نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ فاٹا اور خیبرپختونخوا سے نقل مکانی کرنے والوں کی بڑی تعداد کابھی رخ کراچی ہی کی جانب رہا،کچی آبادیوں میں رہائش اختیار کرنے کی وجہ سے اکثر کی رجسٹریشن نہیں ہوئی،آئندہ چند ماہ میں دو اہم پیشرفت ہونے جا رہی ہیں، اول مردم شماری اور دوسرے الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹرز رجسٹریشن۔
کراچی میں قیام پذیر غیر ملکیوںکی اکثریت میں بنگالی شامل ہیں، جن کی تعداد کا تخمینہ 30؍ لاکھ بتایا جاتا ہے، لیکن ان میں بہاری بھی شامل بتائے جاتے ہیں،مردم شماری کے بعد کراچی کی آبادی 3 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے، آبادی میں اس اضافے کے حو الے سے کراچی کی کبھی منصوبہ بندی نہیں کی گئ اور ٹائون پلانرز نے نام نہاد ترقیاتی اسکیموں کے نام پر اربوں روپےضائع کردیئے۔
مردم شماری نہ ہونے کیوجہ سے کراچی کی آبادی میں اضافے کی شرح کا تعین نادرا اور دیگر متعلقہ حکام نے کیا، بلند ترین تناسب ضلع غربی میں 5 فیصد کے ساتھ بتایا جاتا ہے، شرح پیدائش بھی بنگالیوں، پختونوںا ور افغانیوں میں زیادہ ہے۔ آئندہ مردم شماری کے دور رس سیاسی اور اقتصادی اثرات مرتب ہوں گے۔ مردم شماری کے بعد الیکشن کمیشن کے تحت حلقہ بندیوں کا مرحلہ آئے گا۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوںیمں اضافے کےساتھ کراچی کی نئی سمت بھی طے ہوگی۔ غیر ملکیوں کے حو الے سےا عداد وشمار اکٹھا کرنے والا ادارہ نیشنل ایلیئنز اسٹیٹسکس اتھارٹی (ناسا) گزشتہ کئی برسوں سے عملی طور پر غیر فعال ہے، نادرا سے حاصل سرسری اعداد و شمارکے مطابق کراچی میں 45 لاکھ غیر ملکی رہائش اختیار کئے ہوئے ہیں، جن کا تعلق 67 برادریوں سے ہے۔
ناسا نے چند ماہ قبل رجسٹریشن کا عمل دوبارہ شروع کیا، لیکن اب بھی یہ عمل ان کے لئے مشکل ثابت ہورہا ہے، انکی الجھن بڑی تعداد میں افغانیوں کا موجود ہو نا ہے،جو پناہ گزیں کا درجہ نہیں رکھتے، کراچی کے سیاسی محرکات کچھ اس طرح سے ہیں، جہاں حتیٰ کہ قومی سیاسی جماعتیں تک لسانی اور نسلی زاویوں سے سوچتی ہیں جو بڑا خطرناک رجحان ہے، جس کی وجہ سے کراچی کی ’’منی پاکستان‘‘ کی حیثیت سے شناخت مستند یا راسخ نہیں ہوپارہی۔
کراچی میں پیسہ چلتاہے، اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو کوئی قانون بھی آپ کو غیر قانونیت سے نہیں روکے گا لہٰذا شہر کو سیاسی تعصبات کےبغیر ایک چھتری تلے لانا ہوگا، ایک میٹرو پولیٹن پولیس نظام کی بھی ضرورت ہے، بنیادی مسائل حل کئے بغیر کراچی میں دیرپا امن قائم نہیں ہوسکتا ،شہر برائے فروخت ہے یا بیچ دیاگیا، یہ کوئی نہیں جانتا۔