14 دسمبر ، 2016
پنجاب نے تاریخی طور پر قومی سطح کے لیڈر پیدا نہیں کیے جو عموما چھوٹے صوبوں سے آئے۔ ذوالفقار بھٹو بھی سندھ سے تعلق کے باوجود پنجاب کے معروف رہنما بن کر سامنے آئے، پھر بھٹو اور پی پی پی کا اثر ذائل کرنے پنجاب سے تعلق رکھنے والا شریف خاندان سیاست میں آیا۔
تیس سال میں پہلی بار شریف کو میانوالی پنجاب سے تعلق رکھنے والے عمران خان سے چیلنج درپیش ہے۔ پی پی پی پنجاب میں دوبارہ قدم جمانے کے لیے سخت جدوجہد کررہی ہے لہذا اگلے الیکشن میں پنجاب کی جنگ اہم ہوگی۔
بھٹو سے قبل پنجاب کی سیاسی قیادت اسٹیبلشمنٹ کی طفیلی تھی۔ مضبوط قیادت مشرقی پاکستان سے آئی۔ اس سے قبل صوبہ سرحد یا بلوچستان سے خان عبدالولی خان، مولانا مفتی محمود، سردار عطاء اللہ مینگل، میر غوث بخش بزنجو جیسے رہنما سامنے آئے۔
قائداعظم کے انتقال کے بعد ن لیگ دھڑوں میں بٹ گئی۔ پنجاب کے لیڈر مسلم لیگ کی بنگالی قیادت کے سامنے نہ ٹھہر سکے مثلاً حسین شہید سہروردی۔
سن 1948 سے 1958 تک پاکستان میں تباہ کن حالات پیش آئے۔ سیاسی ناکامی اور سول ملٹری بیوروکریسی سازش کا نتیجہ 1958 میں پہلے مارشل لاء کی صورت نکلا جس نے ون یونٹ کے ذریعے 1971 کی بنیاد رکھی۔ صدارتی الیکشن میں محترمہ فاطمہ جناح صرف کراچی اور ڈھاکا میں جیتیں، جب کہ پنجاب نے ایوب خان کا ساتھ دیا۔
سن 1970 کے الیکشن فیصلہ کن موڑ تھے۔ بھٹو نے ایوب کی کابینہ سے مستعفی ہونے کے بعد پی پی پی بنائی جو تین سال 1967 سے 1970 میں پنجاب کی مقبول ترین جماعت بن گئی۔
انہوں نے روٹی، کپڑا مکان کے ساتھ بھارت مخالف اور وطن پرست نعرے لگائے۔ پاکستان ٹوٹنے کے بعد اسلام آباد پر حکومت کے لیے پنجاب کی اہمیت فیصلہ کن ہوگئی اور اب تک ہے۔
پانچ جولائی 1977 کو بھٹو حکومت ختم ہوئی۔ جنرل ضیا نے مارشل لاء لگایا اور 90 روز میں الیکشن کا وعدہ کیا جو بھٹو کی پنجاب و سندھ میں مقبولیت کی وجہ سے ملتوی ہوگئے۔
بھٹو کو متنازع مقدمے میں پھانسی ہوئی اور ضیاء الحق کا 17 اگست 1988 کو طیارہ کریش کرگیا۔ بھٹو کے بعد پنجاب کی سیاست کا محور شریف رہے۔