20 دسمبر ، 2016
سابق صدر آصف علی زرداری کی 23دسمبر کو ممکنہ واپسی کے ساتھ ہی 30 نومبر کے بعد کے تبدیل ہوتے سیاسی ماحول میں ان کی خود ساختہ جلاوطنی ختم ہوتی نظر آتی ہے اور سیاسی سرگرمیوں کے پنجاب سے سندھ منتقل ہونے کا امکان ہےکیونکہ پیپلز پارٹی نے وزیراعظم نواز شریف پر دباؤ بڑھانے کے لئے دہری حکمت عملی پر کام کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کے شریک چیئرمین کی واپسی کا اعلان کرتے ہوئے اس تاثر کو مسترد کیا ہے کہ ان کی واپسی کا گزشتہ ماہ ہونے والی تبدیلی یا حکومت کے ساتھ مفاہمت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ ڈاکٹروں نے سفر کے لئے انہیں صحت مند قرار دے دیا ہے اور ایسے وقت میں جب پارٹی اپنے چار مطالبات کے لئے تحریک چلانے والی ہے ان کی موجودگی بہت معنی رکھتی ہے۔ ‘‘
زرداری کی واپسی سے نہ صرف سیاست سندھ میں منتقل ہوجائے گی بلکہ سندھ کے اندر بھی جہاں کئی تبدیلیاں ہونے کی منتظر ہیں، وہ حکومت سندھ میں اپنے احکامات جاری کرنا پسند کریں گے۔
آئی جی پی سندھ، اے ڈی خواجہ کو ہٹانا پہلا اقدام معلوم ہوتاہے اور ایسے مزید اقدامات ہوں گے۔ آصف علی زرداری 2015 میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اور سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا نام لیے بغیر خودساختہ جلاوطنی میں چلے گئے تھے۔ان کی جانب سے شدید غصے کے اظہار کے بعد کئی گرفتاریاں اور ان کے کچھ قریبی دوستوں اور سرکاری حکام کے خلاف اقدامات ہوئے تھے۔
ڈاکٹر عاصم حسین، منظور کاکا، نثار مورائی اور دیگر کے خلاف کاروائی ٹھیک نہیں رہی جبکہ پیپلز پارٹی کی قیادت رینجرز کی کچھ پریس ریلیز اور اس وقت کے کور کمانڈر اور اب آئی ایس آئی کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کی ایک تقریر سے ناراض تھی کیونکہ یہ سندھ حکومت کے خلاف ایک چارج شیٹ تھی۔
آصف زرداری دبئی میں تھے جب انہیں رینجرز کی جانب سے ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری کی خبر ملی اور بعد میں ان کی جے آئی ٹی رپورٹ بھی بنی جس میں انہیں دہشت گردی کی فنا نسنگ میں مبینہ طور پر اپنے رابطوں کی وجہ سے مکمل طور پر ملوث قرار دیا گیا۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے خلا ف پیپلز پارٹی کے شدید غصے کا ڈاکٹر عاصم کے خلاف ایکشن اور بعد میں ماڈل آیان علی کی کرنسی کیس میں گرفتاری سے بہت زیادہ تعلق ہے۔
صورتحال اس وقت اور کشیدہ ہوگئی جب چوہدری نثار مزید آگے بڑھ گئے اور اپنی ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے ڈاکٹر عاصم کی اعترافی ویڈیو کا انکشاف کیا جو چند ماہ کے بعد نشر بھی ہوئی۔
تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ چوہدری نثار پہلے شخص تھے جنہوں نے ریکارڈ پر یہ بیان کیا کہ جس طرح ڈاکٹر عاصم کو رینجرز نے گرفتار کیا وہ مناسب نہیں تھا اور اس سے بہت سے سوالات پیدا ہوئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف بھی نیب کے کچھ اقدامات کے خلاف تھے کیونکہ انہیں خدشہ تھا کہ اس سے ان کے آصف علی زرداری سے تعلقات خراب ہوجائیں گے۔
چوہدری نثار کا دوسرا نظر یہ تھا اور انہوں نے اختلاف کیا اور ایف آئی اے کو اس کے اقدامات سے نہیں روکا، اگرچہ نیب پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں تھا۔ لہذا پیپلز پارٹی خاص طور پر کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ کے بعدچوہدری نثار کو ہٹانے کے اپنے مطالبے پر زور دینا چاہتی ہے۔
اس رپورٹ نے وزارت داخلہ اور وزیر داخلہ کی کارکردگی کے حوالے سے کچھ سوالات کھڑے کردئیے ہیں اور اس نے انہیں اپنی پوزیشن واضح کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
سابق صدر کی جانب سے بے نظیر بھٹو کی 9ویں برسی کے موقع پر ان کی واپسی اور گڑھی خدا بخش میں ممکنہ عوامی جلسے سے خطاب میں آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کی اس مہم کو لانچ کرنے کا اعلان کریں گے جس کا طویل عرصے سے انتظار ہے۔
اس دوران جبکہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری تحریک کی قیادت کریں گے جس کا امکان جنوری 2017 کے پہلے یا دوسرے ہفتے سے ہونے کا امکا ن ہے تو آصف زرداری، رہنماؤں جیسے مولانا فضل الرحمٰن، چوہدری شجاعت حسین، اسفند یار ولی، ڈاکٹر فاروق ستار اور سندھ کے ممتاز سیاستدانوں سے اگلے عام انتخابات کے تناظر میں ملاقات کریں گے۔
یہ دیکھنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ وہ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ملاقات کرتےہیں یا نہیں لیکن اپنی حکومت کے وزیر خارجہ اور اب پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما شاہ محمود قریشی سے ان کی ممکنہ ملاقات کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا۔
تاہم پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی اتحاد کے امکانات نہیں ہیں کیونکہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی دونوں کو چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو الیکشن کے نقطہ نظر سے پی پی پی کے لئے سود مند ہے۔
پی ٹی آئی اور پی ایم ایل میں بڑھتی ہوئی کشمکش سے پنجاب میں سیٹیں تقسیم ہوسکتی ہیں اور یہ بات بھی آصف علی زرداری کے ذہن میں ہیں۔ وہ سندھ سے زیادہ سے زیادہ کچھ جنوبی پنجاب اور خیبرپختونخوا سے حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایک مضبوط اتحاد تشکیل دیا جاسکے۔
انہوں نے پاکستان مسلم لیگ ف میں بھی بڑا شگاف ڈال دیا ہے اور جتوئیوں پر بھی ان کی کامیابی کا امکان ہے۔ مردم شماری اور حد بندی کے بعد اگر نشستوں کی تعداد دگنی ہوجاتی ہے تو قومی سیاست کا منظر نامہ مزید دلچسپ اور چیلنجنگ ہوجائے گا۔
آصف زرداری کسی بڑی سودے بازی کے لئے پیپلز پارٹی کی پوزیشن کو مزید محفوظ بنانے کے لئے کراچی اور حیدرآباد سے بھی کچھ نشستیں جیتنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن اور خاص طور پر وزیراعظم نواز شریف ان کی واپسی اور سیاست کا کیا اندازہ لگاتے ہیں، یہ بھی عمران خان،پاناما کیس اور کچھ دیگر متعلق مسائل کے دباؤ کے پیش نظر ان کے لئے چیلنجنگ ہوگا۔
اگر پیپلز پارٹی 27 دسمبر کے منظر نامے کے بعد اپنے لانگ مارچ کا اعلان کرتی ہے اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر دباؤ بڑھانے کا ذہن بنا لیتی ہے تو اس بات کا امکان ہے کہ مولانا فضل رحمان غیر جابندار امپائر کا کردار ادا کریں گے اور نواز شریف اور آصف علی زرداری کے مابین معاملات طے کرانے کی کوشش کریں گے۔
جے یو آئی ف احتجاج میں شرکت کے موڈ میں نہیں ہے۔ جس کا اندازہ بلاول کے خلاف ان کے ریمارکس سے ہوسکتا ہے۔ اس کے بجائے وہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے اتحاد کے خلاف جے یوآئی، اے این پی، پی پی پی اور مسلم لیگ ن کا اتحاد چاہتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اے این پی بھی اپنے آپ کو کسی بھی احتجاج سے الگ رکھنا چاہتی ہے تاہم وہ اتحاد میں شمولیت اختیار کرسکتی ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کی جانب آصف زرداری کا رجحان دلچسپی کا باعث ہوگا کیونکہ وہ ایم کیو ایم لندن سے فاصلہ برقرار رکھنا چاہیں گے۔ لہذا اگر زرداری پاکستان میں ایک یا دو ہفتے قیام کے بعد دبئی یا لندن لوٹ بھی جاتے ہیں تب بھی وہ قومی سیاسی منظر کو اسلام آباد یا لاہور سے بلاول ہاؤس کراچی منتقل کرنا چاہیں گے۔
آصف علی زرداری کو طبی مسائل خاص طورپر کمر سے متعلق مسائل کا سامنا ہے، ویسے توگزشتہ ایک سال کے دوران وہ دبئی سے لندن اور امریکا کا سفر کرتے رہے ہیں لیکن پہلی مرتبہ انہیں پاکستان کا سفر کرنے کے لئے قرار دیا گیا ہے، حیرانی کی بات یہ ہے کہ اب، کیوں اور کس ڈاکٹر نے انہیں یہ کلیئرنس دی ہے۔ سندھ میں پرانی تبدیلی آگئی۔