27 دسمبر ، 2016
\27دسمبر 2007ء کو ’’پراسرار گولی‘‘ سے ہٹ ہونے کے بعدبے نظیر بھٹو اپنی پولیٹیکل سیکریٹری ناہید خان کی گود میں گریں اور اس کے بعد ایک لفظ بھی نہ بول سکیں۔ اس واقعے سے اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کا المناک سیاسی سفر ختم ہو گیا،پاکستان پیپلز پارٹی اس کے بعد اب تک بازیافت نہیں کر سکی۔
بے نظیر نے عملی طور پر خود کو حقیقی عوامی لیڈر ثابت کیا اور اپنے ہی لوگو ں کے درمیان جان دیدی ۔ شاید ہم ان کے قتل کی حقیقی کہانی کبھی نہ جان سکیں۔
پی پی پی کے سابق سینیٹر صفدر عباسی نے جو اپنی اہلیہ ناہید کے ہمراہ اس کار میں موجود تھے، یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا کہ بے نظیر کہہ رہی تھیں کہ میرا میاں صاحب سے رابطہ کراؤ، میں نے سنا ہے کہ ان کی ریلی پر فائرنگ ہوئی ہے اور کچھ لوگ جاں بحق ہوئے ہیں ۔میں ان کی اور ان کے کارکنوں کی صحت معلوم کرنا چاہتی ہوں، ان کا فون مصروف جا رہا تھا، او کے، ٹھہرو میں اپنے کارکنوں کے سامنے ہاتھ ہلا دوں وہ چاہتے ہیں کہ ان کی لیڈر جواب دیں، یہ کہہ کر وہ کار سے باہر آئیں اور اس کے بعد کچھ نہ بول سکیں۔
انہوں نے کہا کہ کاش میاں صاحب کا فون مصروف نہ ہوتا،کاش ہم یہ مقام چھوڑ دیتے اورکاش وہ کار سے باہر نہ آتیں۔
وزیراعظم نواز شریف جو بے نظیر پر حملے کی اطلاع ملنے پر سب سے پہلے ہسپتال پہنچے تھے اور سب کو وہاں چیختے دیکھا تھا کہا تھا کہ یہ ایک عظیم خاتون اور عظیم لیڈر کا نہیں بلکہ ایسے وقت میں جمہوریت کا قتل ہے جب ہم دونوں میثاق جمہوریت پر اتفاق کر چکے تھے۔
آج ہم ان کے کیرئیر ، قتل اور اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ آخر پی پی پی سمیت کوئی حکومت بھی ان کے قتل کے منصوبہ سازوں ، اس کے مرتکبین اور مالی امداد دینے والوں کا سراغ کیوں نہیں لگا سکی؟ اور ان میں سے کچھ لوگ ہلاک جبکہ 4پر مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
یہ درست ہے کہ ان کا قتل ایک’’ذہنیت‘‘ نے کیا جو ہمیشہ ایک خاتون کو وزیراعظم کے طور پر قبول نہیں کر سکی اور جب لوگوں نے اسے ووٹ دے کر اقتدار دیا تو ان لوگوں کو شکست ہوئی۔کامیابی کے باوجود انہیں وزیراعظم کے طور پر قبول نہ کیا گیا اور انہیں نکال باہر کرنے کی کوششیں مسلسل ہوتی رہیں لیکن ہر مرتبہ وہ پھرواپس آ گئیں،جس پر آخر کار انہیں جسمانی طور پر ختم کر دیا گیا۔ پہلے ان کے والد کو جسمانی طور پر ہٹایا گیا اور 9سال بعد اس کی بیٹی کو۔
اس سے بالاتر کہ اس سوچ اور ذہنیت کو انتخابی حمایت ملی ہے یا نہیں یہ ذہنیت آج بھی سیاسی بیانیہ کو کنٹرول کرتی ہے، حتیٰ کہ نیشنل ایکشن پلان اور آپریشن ضرب عضب بھی اسے کمزور نہیں کر سکے۔ مگر یہ صرف اکیلے اس سوچ کا معاملہ نہیں کیونکہ سیاست میں تبدیلی آتی رہتی ہے اور یہ سادگی اوربھول پن ہو گا اگر ہم ان کے قتل کے صرف ایک پہلو تک ہی محدود رہیں اور اس بات کو نظر انداز کر دیں کہ آخر بے نظیر سے قبل اور بے نظیر کے بعد کس کس پر الزامات لگے ۔
اس المیے کے وقت بلاول بھٹو کم عمر تھے، دبئی سے پاکستان آنے سے قبل بے نظیر اپنے خاندان کے ہر شخص سے ملیں کیونکہ وہ اپنے اس سفر میں درپیش خطرات سے بخوبی آگاہ تھیں ۔ وہ اپنی واپسی کے بعد قتل کی پہلی کوشش میں اس وقت بچ گئیں جب پیپلز پارٹی کے 150 کارکنوں کی جانیں گئیں، انہیں واپس چلے جانے کا مشورہ دیا گیا مگر انہوں نے انکار کردیا۔
وہ 26دسمبر کوپشاور میں اس وقت بچ گئیں جب ایک مبینہ خود کش حملہ آو ر کو گرفتار کرلیا گیا جو اُن کی کار کے قریب خود کو اڑانا چاہتا تھا مگر 27دسمبر کو ہونے والے ہلاکت خیز حملے میں نہ بچ سکیں اور یہ واقعہ 8جنوری کے انتخابات سے صرف 10دن پہلے پیش آیا اور وہ قتل کردی گئیں ۔
بلاول نے اپنی والدہ کے سیاسی سفر کو آگے بڑھانے کے لئے نامزدگی کے موقع پر درست طور پر انصاف کا مطالبہ کیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی ایک مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ موجودہ حکومت سے انصاف مانگنا جائز ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) ساڑھے تین سال سے برسر اقتدار ہے مگربلاول کو چاہئے کہ وہ جرأت دکھائے اور 2008ء سے 2013ء تک برسر اقتدار رہنے والی پیپلز پارٹی حکومت سے بھی 18اکتوبر اور 27دسمبر کے المیہ واقعات کی تحقیقات میں ناکامی پر جواب طلب کرے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اپنی والدہ کے قتل کے حوالے سے بی بی کی طرف سے سندھ پولیس کے سربراہ کو لکھے گئے خط کے دن سے ان کے قتل کے روز کے درمیان موجود خلا کو تلاش کریں اور یہ کہ کب تک یہ خط سیل رکھا گیا ،انہیں چاہئے کہ وہ اس حادثے کے سیاسی کے ساتھ ساتھ کریمنل پہلو کا بھی جائزہ لیں۔
ایک چیز جس کا بلاول کو جائزہ لینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اس خط میں بے نظیرنے جن لوگوں کے نام لئے تھے ان سے تحقیقات کیوں نہیں کی گئی؟ اور یہ کہ اس کے برعکس ان میں سے بعض پی پی پی کے اتحادی بنے۔ جب بے نظیر نے کہا تھا کہ ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ تو وہ ماضی کی سیاسی رقابت کو دفن کرنا چاہتی تھیں تاکہ جمہوریت کو مضبوط کیا جا سکے ۔
مگر انہوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ان کے اس قول کو ’’خود ان کے قتل کیس کو دفن کرنے‘‘ کے لئے استعمال کیا جائے گا، 18اکتوبر کے بعد کے خط میں جن کے نام تھے ان تمام لوگوں کو ناصرف پرپتاک الوداع کہا گیا بلکہ دیگر کو اتحادی بھی بنا لیا گیا۔
سابق صدر آصف علی زرداری جو شریک چیئرمین کی حیثیت سے بی بی کے جانشین بنے، توقع ہے کہ بے نظیر کی نویں برسی پر اہم تقریر میں کچھ حیرت انگیز انکشافات کریں گے جس کے بارے میں یقین ہے کہ ان کے پی پی پی اور مستقبل کی سیاست پر دور رس اثرات ہوں گے۔
بے نظیر کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی ریکو ر نہیں کرسکی اور ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ 2008ء میں راولپنڈی سے بھی ہارگئی، ایک ایسا شہر جس میں ان کی بہت سی یادیں تھیں اور ایک وقت میں جو پیپلز پارٹی کا مضبوط گڑھ تھا۔
ذوالفقار علی بھٹو ایک مدبر تھے اور انہوں نے مردانہ تسلط کی تمام معاشرتی روایات کو توڑتے ہوئے اپنی چھوٹی بیٹی بے نظیر بھٹو کی پرورش مختلف انداز میں کی، یہ بات سب سے پہلے ایک بھارتی صحافی نے نوٹ کی جس نے 1970ء کے عشرے کے آغاز میں شملہ کے تاریخی سمجھوتے کے موقع پر بے نظیر بھٹو کا انٹرویو کیا تھا۔
اگرچہ بی بی اس وقت کم سِن تھی جب وہ جیل میں والد سے ملنے جاتی تھیں اور ایک بار انہوں نے پھانسی سے ایک روز قبل والد سے ہونے والی آخری ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا ’’یہ میری زندگی کا انتہائی تکلیف دہ لمحہ تھا مگر وہ مطمئن اور پُرسکون تھے اور انہوں نے مستقبل کی سیاست کے حوالے سے مجھے ٹپس دیں ، وہ سودے بازی کر سکتے تھے مگر انہوں نے انکار کردیا کہ وہ اپنے لوگوں کے ساتھ جینا اور مرنا چاہتے تھے ۔
تقریباً تین عشروں کے بعد وہ خود بھی اسی صورتحال کا شکار ہوگئیں ، بھٹو کی طرح وہ بھی واپس جا کر دبئی میں بیٹھ کر جنوری2008ء کے انتخابات کا انتظار کر سکتی تھیں اور وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد واپس آ سکتی تھیں مگر انہوں نے تمام مشورے ٹھکرا دیئے اور لیاقت باغ میں ان سے خطاب کے چند منٹ بعد عوام میں ہی جان دے دی۔
انہوں نے نا صرف عوام کے درمیان جان دی بلکہ جب ان کی آصف علی زرداری سے شادی ہوئی تو انہوں نے لیاری میں، جو پیپلز پارٹی کا مضبوط گڑھ تھا ’’عوامی استقبالیہ‘‘ دیا۔ بہت سے دیگر سیاسی رہنمائوں کے برخلاف انہوں نے عوام کی سامنے سے قیادت کی اور بہت سے مواقع پر احتجاج کے دوران ان کی اچانک آمد پولیس اور انتظامیہ کو حیرت زدہ کردیتی تھی۔ اس کا میں نے کم از کم دو بار مشاہدہ کیا، ایک 1986ء میں لیاری اوردوسری بار راولپنڈی میں ریلی کے دوران۔ دونوں مواقع پر وہ اس وقت سامنے آئیں جب آنسو گیس کے گولے چلائے جارہے تھے۔
بے نظیر کا سیاسی سفر 70کلفٹن سے شروع ہو کر بلاول ہائوس پر اختتام پذیر ہوگیا، اپنے نشیب و فراز پر مبنی سیاسی سفر کے دوران انہوں نے جیل، گرفتاری اورجلا وطنی دیکھی مگر پارٹی کو زندہ رکھا۔ جنرل ضیاء کے دور میں ان کی کردار کشی کے ذریعے انہیں بدنام کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر انہوں نے حوصلہ دکھایا۔
انہیں حوصلہ اور مضبوطی دینے میں بیگم نصرت بھٹو کا کردار کلیدی تھا۔ یہ تاریخ کا قصہ اور اب تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ بے نظیر کی سربراہی میں پیپلز پارٹی کو کبھی دو تہائی اکثریت نہیں لینے دی گئی اور اسٹیبلشمنٹ کا اس وقت کردار ایک کھلا راز ہے۔
اس کے لئے اس نے 1988ء میں آئی جے آئی بنائی اور اس کی پشت پناہی کی اور 1990ء میں مہران بینک سے رقوم تقسیم کیں۔ پیپلز پارٹی ختم ہو چکی ہے یا نہیں اس کا انحصار خود جماعت اور اس کی قیادت پر ہے مگر اس اَمر کا امکان بہت کم ہے کہ پیپلز پارٹی اب ویسی بن سکے گی جیسی بھٹو اور بے نظیر کے دور میں تھی۔