07 فروری ، 2017
28جون 1990ء کو کراچی کے ایک بہادراور جری تھانے دار ایس ایچ او نیوکراچی بہادر علی کوٹارگٹ کر کے قتل کیا گیا، اس واقعے اور اس جیسے کچھ اور واقعات نے، جب کراچی کا ماحول یہ بنادیا کہ جرائم پیشہ عناصر پولیس کی کارروائیوں پر حاوی ہونے لگے تو اس شہر میں آپریشن کیا گیالیکن جن پولیس افسروں نے آپریشن کیا وہ خود ایک غیر اعلان شدہ آپریشن کا شکار ہو کر ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنادیئے گئے۔
کراچی آپریشن کرنے اور اس کے بعد چن چن کر شہید کیے جانیوالے پولیس افسروں میں سے چند نام انسپکٹر اسلم حیات، توفیق زاہد، ذیشان کاظمی، حیدر بیگ، امداد کھٹیان، اعجاز شاہ، ناصر الحسن، بہاؤالدین بابر، ریحان احمد، نثار احمد، کاشف عزیز، عزیز الرحمان، شاہ محمد شاہ، غضنفر کاظمی اور شفیق تنولی ہیں۔
نوے کی دہائی میں کراچی میں دہشت گردی کے خلاف کارروائیاں پولیس یا رینجرز نے شروع نہیں کی تھیں بلکہ اندرون سندھ ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کلین اَپ کا آغاز پاک فوج نے کیا تھا، جس کا دائرہ دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کے لیے کراچی تک پھیلا دیا گیا۔
گمبھیر صورتحال پر قابو پالیا گیا تو رینجرز اور پولیس ذمے داری سونپ کر پاک فوج بیرکوں میں چلی گئی، پھر رینجرز اور پولیس نے شانہ بشانہ کراچی آپریشن کو آگے بڑھایا، اس دوران آسان ٹارگٹ ہونے کی وجہ سے پولیس افسران کی غیر معمولی شہادتیں بھی ہوئیں۔
آپریشن ختم ہوا تو پاکستان رینجرز نے، آپریشن میں حصہ لینے والے اپنے افسران کے تبادلے محفوظ علاقوں میں کر دیئے لیکن کراچی پولیس آپریشن کرنے والے پولیس افسران کو ناصرف کراچی میں رکھا گیا بلکہ اُنہیں عہدوں سے بھی ہٹا دیا گیا، بعد میں سندھ پولیس کی کمان تبدیل ہوئی تو آپریشن کرنے والے افسران تن تنہا جانیں بچانے کیلئے چھپتے پھرتے رہے۔
یہی وہ دور تھا جب کراچی آپریشن میں شامل پولیس افسران کو چن چن کر قتل کیا گیا، اب کراچی آپریشن کرنے والے افسران میں صرف اتنے بچے ہیں جنہیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔