خصوصی رپورٹس
10 فروری ، 2017

آرٹس کونسل کا آڈیٹوریم فاطمہ ثریا بجیا کے نام سے منسوب

آرٹس کونسل کا آڈیٹوریم فاطمہ ثریا بجیا کے نام سے منسوب

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کا زیر تعمیر آڈیٹوریم فاطمہ ثریا بجیا کے نام سے منسوب کر دیا گیا ہے۔یہ اعلان صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ اور بجیا کے بھائی معروف مصنف انور مقصود نے مشترکہ طور پرآرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام ممتاز ڈرامہ نویس، ادیبہ اور سماجی کارکن فاطمہ ثریا بجیا کی پہلی برسی کے موقع پر منعقدہ سیمینارمیں کیا۔

اس موقع پر احمد شاہ نے کہا کہ جب تک آرٹس کونسل کراچی آڈیٹوریم قائم اور ہماری تہذیب و ثقافت زندہ ہے بجیا کا نام بھی زندہ رہے گا۔

بجیا کی بہن اور معروف شاعرہ زہرا نگاہ نے کہا کہ اپنے عزیز جو دنیا میں نہ ہو اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ اس دنیا میں ایسے بہت سے لوگ ہیں جو خالی ہاتھ آتے ہیں اور خالی ہاتھ چلے جاتے ہیں مگر ایسے بھی ہوتے ہیں جو دوسروں کے ہاتھ بھر کر جاتے ہیں۔ بجیا نے کبھی ذو معنی لفظ نہیں لکھا۔بڑا ادب کبھی مرتا نہیں ،بجیا کے ڈرامے آج بھی زندہ ہیں۔ ’کاٹھ کی گڑیا ‘بجیا نے کہاں سے نکالی کہ سب کو پسند آتی ہے۔ ’ویب‘ آج کے دور کی بھی عکاس ہے۔انہوں نے سوشل ورک میں بھی محنت کی ان کی این جی او میںصرف تین لوگ تھے ایک وہ خوددوسر اان کا ڈرئیور اورتیسری ان کی سوزوکی گاڑی۔ ان کی قبر پر آج بھی لوگ پھول ڈالتے ،تسبیح پڑتے ہیں۔‘‘

بجیا کے بھائی اور معروف دانشور انور مقصود ہے کہا کہ بجیا دکھی لوگوں کو قریب لاتی تھیں۔ بجیا کا گھر محبتوں کا بازار بنا ہوا تھا ان کا ذکر ان کے جانے کے بعد زیادہ ہونے لگا۔ وہ لوگ زیادہ بہتر بتائیں گے جو ان کے بہت قریب تھے۔ ایک صاحب بجیا کے گھر اکثر بیٹھے ہوئے ملتے تھے میں نے پوچھا آپ کیوں یہاں بیٹھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہیں زندگی کا لطف آتا ہے۔

پیرزادہ قاسم رضا صدیقی نے کہا کہ آج کی محفل سجاکر احمد شاہ نے بہت اچھا کیا۔ بجیا ہمارے عہد کی روشن خیال شخصیت تھیں۔ بجیا کا خاندان پورا معاشرہ تھا۔ وہ اسی کے ساتھ جڑی ہوئی تھیں۔ وہ ہمارے دلوں میں موجود ہیں۔ ہم اگر ثابت کریں کہ ہم زندہ معاشرہ ہیں تو بجیا پر بھی ایچ ڈی ہونی چاہئے۔ ان سے ہم تک جو زبان اور تہذیب پہنچی وہ آئندہ نسلوں تک جانا چاہیے۔ تہذیب، اخلاق، ثقافت کو کورئیرکے ذریعے نہیں بلکہ انسانوں کے ذریعے منتقل کیا جا تا ہے اوروہ بجیا جیسے لوگ ہوتے ہیں۔ اگر مشرقی تہذیب کی یلغار سے اپنی تہذیب کو بچانا ہے تو بجیا جیسا کام کرنا ہو گا۔ انہوں نے ایک مشن کے طور پر کام کیا۔ ان کی شخصیت معنی خیز ہے۔

ظہیرخان نے کہا کہ بجیا کے ڈراموں میں تہذیب ،شرافت اور برصغیر کا کلچر نظر آتا ہے۔ پی ٹی وی صرف ایک ڈبہ نہیں بلکہ یہ ایک اسکول ہے جس نے قوم کو تعلیم اور تہذیب سیکھائی۔ اس وقت پی ٹی وی پر ایسی کوئی بات نہیں ہوتی تھی جو غیر تہذیبی ہو۔پاکستان اور پاکستانیوں سے ان کو محبت تھی۔ انہوں نے پاکستان کی بہت خدمت کی۔وہ بلند قد کی مالک تھیں۔

قاضی واجد نے کہا کہ بجیا وقت سے پہلے چلی گئیں ابھی بہت سارے لوگوں کے کام باقی ہیں ان کا کام کون کرے گا۔ وہ ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں رہتی تھیں وہ کبھی بہترین سے کم کام سے مطمئن نہیں ہوئیں ۔بجیا اپنے پیچھے ایک ایسی روشنی چھوڑ کے گئی ہیں جو آنے والوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔

پی ٹی وی کے سینئر پروڈیوسر عشرت انصاری نے کہا کہ بجیا کے بہت سے ڈرامے کئے۔ جو سیریز انہوں نے لکھی آج تک کوئی دوسرا نہیں لکھ سکا۔ زندگی کے بہت سے شعبوں کا ان کو علم تھا۔

زبیدہ آپا نے کہا کہ بجیا بہن نہیں ہمارے لئے ماں تھیں۔ اگر ہم زور سے بات کریں تو وہ کہتی تھیں آہستہ بولو تاکہ لوگوں کی سمجھ میں آئے۔امی بھی ان سے مشورہ کرتی تھیں۔

بہروز سبزواری نے کہا کہ بجیا کی یاد میں منعقد پروگرام میں آنا ہی خوش قسمتی ہے میں نے بولنا اسی خاندان سے سیکھا۔ آرٹس کونسل کے صدر احمد شاہ ایسا قانون بنائیں کہ ہر سال اسی طرح پروگرام منعقد ہو۔

اقبال لطیف نے کہا کہ ایک سال گزر گیا صدیاں بھی گزر جائیں پھر بھی ہم بجیا کو نہیں بھول سکیں گئے۔

کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر شمیم فرپو نے کہا کہ بجیا سے جو ملتا تھا ایسا لگتا تھا کہ اس کو بجیا نے ہی پالا ہے۔ان کے جانے سے مجھے لگتا ہے میں یتیم ہو گیا۔ ان کے چانے والے بہت تھے۔ ایسی شخصیت ایسا تمدن اس سے پہلے نہیں دیکھا ۔

معروف مصور قدسیہ نثار نے کہا کہ بجیا لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لئے دن رات تیار رہتی تھیں۔ بلا تخصیص لوگوں کی خدمت کی۔ کسی بھی تخلیقی انسان کاان جیسی شخصیت کے لئے کچھ کہنا بہت کم ہے۔

ایاز خان نے کہا کہ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ ایک خاندان ایسا ہے جس کی سربراہ بجیا تھیں۔ میں نے ان کے دو پلے کئے مگر وہ یاد گار ہیں۔ وہ لوگوں کے لئے مشل راہ تھیں۔

مسٹر اتاکا اور ان کی بیگم نے مشترکہ طور پر تقریر کی اور کہا۔بجیا میری پاکستانی ماں تھیں۔سب کہتے تھے کہ بجیا میری ماںہیں اور میں بھی کہتا ہوں بجیا میری ماں ہیں۔

شہناز صدیقی نے کہا کہ بجیا نے اسکرپٹ لکھا اس پر میں نے کام کیا۔ایسی شخصیت میں نے زندگی میں نہیں دیکھی ۔

شہزاد رضا نے کہا کہ بجیا کے قریب آ کر مجھے بہت کچھ ملا جب وہ سر پر ہاتھ رکھتی تھیں تو اندازہ ہوتا تھا کہ محبت کیا ہوتی ہے ۔

شاہد رسام نے کہا کہ بجیا کا پورا خاندان ہی برصغیر کا نامور خاندان ہے۔ بجیا نے تہذیب کے ساتھ رشتوں میں رنگ بھرنا بھی سیکھا یا ہے۔

ہما میر نے کہا کہ بجیا سب سے محبت کر نے والی شخصیت تھیں ان کے جا نے سے معاشرے کا بہت نقصان ہوا مجھے فخر ہے کہ میںنے ان کے ڈرامے میں کام کیا۔

 

مزید خبریں :