16 مارچ ، 2017
اُنیس سال کے طویل انتظار کے بعد بالآخر پاکستان میں چھٹی مردم شماری کروائی جارہی ہے، مردم شماری کو ملک کی مستقبل کی منصوبہ سازی کےلیے بہت اہم سمجھا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں اسے بروقت کروانے کی کوشش کی جاتی ہیں۔
اس کی مثال ریاست ہائے متحدہ امریکا ہے جہاں پہلی مردم شماری 1790ء میں ہوئی جب سے آج تک ہر 10 سال کے وقفے سے یہ عمل بلا تعطل کیا جارہا ہے۔
مردم شماری کی قانونی حیثیت
پاکستان کے آئین اور قانونی تقاضوں کے مطابق بھی ملک میں ہر 10 سال بعد مردم شماری کرانا ضروری ہے، آئین کے آرٹیکل 51 کی شق 5 کے تحت عام انتخابات کے انعقاد، قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستیں کے تعین، حلقہ بندیوں وغیرہ کے لیے تمام صوبوں، فاٹا اور وفاقی دارلحکومت میں مردم و خانہ شماری کرانا ضروری ہے، تاہم اس کی اہمیت کے باوجود آزادی کے بعد چند دہائیوں تک تو اس مشق کو بھرپور طریقے سے انجام دیا گیا لیکن بعد میں کبھی بد امنی تو کبھی سیاسی مصلحتیں آڑے آئیں اور مردم شماری کرانے سے گریز کیا گیا۔
مردم شماری تاریخ کے آئینے میں
پاکستان میں پہلی مردم شماری 1951 میں کرائی گئی،جس کے مطابق اس وقت ملک کی آبادی 7 کروڑ سے زائد تھی، جس میں موجودہ یا اس وقت کے مغربی پاکستان کی آبادی 3 کروڑ37 لاکھ سے زائد تھی، ان اعدادو شمار کے مطابق پنجاب کی آبادی 2کروڑ5 لاکھ سے زائد سندھ کی آبادی 60 لاکھ 47 ہزار سے زائد، بلوچستان کی 11 لاکھ 67 ہزار سے زائد جبکہ خیبرپختونخوا کی آبادی 45 لاکھ 56 ہزار نفوس پر مشتمل تھی، جبکہ 1951ء میں فاٹا کی آبادی 13 لاکھ 32ہزار سے زائد تھی، البتہ اس وقت ملک کا دارالخلافہ یعنی کراچی کی آبادی 12لاکھ نفوس سے زائد تھی، جبکہ اسلام آباد کی 95 ہزار سے کے لگ بھگ تھی۔
پھرٹھیک 10سال بعد 1961ء دوسری مردم شماری ہوئی، 1961ء میں پاکستان کی آبادی 9 کروڑ 38 لاکھ سے تجاوز کی گئی تھی، اُ س مردم شماری میں مغربی پاکستانی کی آبادی 27 فیصد اضافہ کے ساتھ 4 کروڑ 28 لاکھ سے زائد ریکارڈ کی گئی، جس میں کراچی کی آبادی 76 فیصد اضافے کے ساتھ 21 لاکھ سے زائد نوٹ کی گئی جبکہ اسلام آباد کی آبادی 1لاکھ 18 ہزار دیکھی گئی۔
تیسری مردم شماری 1971ء میں سیاسی حالات خراب ہونے کے باعث ایک سال کے التوا کے بعد 1972ء میں کروائی گئی، سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد ہونے والی اس مردم شماری میں پاکستان کی آباد ی میں 52 فیصد سے زائد کا اضافہ نوٹ کیا گیا اور یہ 6 کروڑ 53 لاکھ سے زائد ہو گئی۔
چوتھی مردم شماری 1981ء میں شیڈول کے مطابق ہوئی، جس میں ملکی آباد ی 8 کروڑ 42 لاکھ سے زائد ریکارڈ کی گئی اور گزشتہ مردم شماری کے مقابلے میں29 فیصد اضافہ نوٹ کیا گیا۔
پانچویں مردم شماری کو 1991ء میں ہونا تھا لیکن نامعلوم وجوہات کے باعث یہ 7 سال بعد 1998 ءمیں کرائی گئی، جس کے مطابق آبادی 13 کروڑ 23 لاکھ سے زائد نوٹ کی گئی جو57 فیصد اضافہ تھا۔
تاہم 1951ء سے 1998ء تک مجموعی طور پر ملکی آبادی میں اضافے کو دیکھا جائے تو یہ 300 فیصد سے زائد بنتاہے، آبادی میں اس اضافے کا اثر صوبوں دیکھا جائے تو 1951ء کے مقابلے میں پنجاب کی آبادی میں 250 فیصد اضافہ کے ساتھ 7 کروڑ 36 لاکھ سے زائد ہو گئی، صوبہ سندھ کی آبادی میں 400 فیصد سے زائد کا اضافہ ہوا اور 1998 میں اس کی آبادی 3 کروڑ سے زائد ہوگئی، بلوچستان کی آبادی میں بھی 450 فیصد سے زائد کا اضافہ دیکھا گیا اور یہ 11 لاکھ سے بڑھ کر 1998ء میں 65لاکھ پر پہنچ گئی جبکہ خیبرپختونخوا کی آبادی 1951ء کے مقابلے میں 289 فیصد کے ساتھ بڑھ کرایک کروڑ 77لاکھ سے زائد ہو گئی، فاٹا کی بات کی جائے تو اس کی آبادی میں 138 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 31 لاکھ سے زائد نوٹ کی گئی۔
سال 1951ء کے مقابلے میں اسلام آباد کی آبادی میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا جو 700 فیصد سے زائد تھا اور اس کی آبادی 1998ء میں 8 لاکھ سے زائد ہوگئی جبکہ کراچی کی آبادی 93 لاکھ سے زائد ریکارڈ کی گئی جو 1951ء کے مقابلے میں 660 فیصد سے زائد تھی۔
سال 1998ءکی مردم شماری کے ہی مطابق ملک میں مردوں کی شرح 52 فیصد جبکہ خواتین کی شرح 48 فیصد تھی۔
مردم شماری 2017
اب 19 سال بعد بالآخر چھٹی مردم و خانہ شماری کا آغاز کیا گیا ہے، جس پر ایک اندازے کے مطابق تقریباً24 سے 25 ارب روپے خرچ ہوں گے، چھٹی مردم شماری 2مراحل میں کروائی جارہی ہے۔
پہلا مرحلہ
پہلا مرحلہ 15 مارچ سے شروع ہوکیا گیا ہے جو 15 اپریل تک جاری رہےگا، اس مرحلے میں پنجاب کے 15 اضلاع جھنگ، چینیوٹ، فیصل آباد، ٹوبہ ٹیک سنگھ، ڈیرہ غازی خان، راجن پور، لیہ، مظفرگڑہ، لاہور، حافظ آباد، نارووال، سیالکوٹ، وہاڑی، بہاولپور، پاکپتن اور اٹک میں مردم شماری کروائی جارہی ہے۔
سندھ میں کراچی ڈویژن سمیت 8اضلاع جس میں حیدرآباد اور گھوٹگی شامل ہیں جبکہ خیبرپختونخوا میں پشاور، مردان، صوابی، چارسدہ، نوشہرہ، لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان، ہنگو، ایبٹ آباد، ہری پور، مانسہرہ، بٹہ گرام،تورغر اور فاٹا کی اورکزئی ایجنسی میں پہلے مرحلے میں شامل کیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ پہلے مرحلے میں صوبہ بلوچستان کے 15 اضلاع، آواران، کوئٹہ، لسبیلہ، ڈیرہ بگٹی، کوہلو، موسی خیل، واشک، خاران، قلات، جعفر آباد، نصیر آباد، پشین، نوشکی، لہڑی اور تربت کو شامل کیا گیا ہے،آزاد جموں و کشمیر میں مظفر آباد، باغ، سدھنوتی، کوٹلی اور بھمبر جبکہ گلگت بلتستان میں غذر، نگر، غانچی، گلگت اور بلتستان کے اضلاع مردم شماری کے لیےچنے گئے ہیں۔
دوسرا اور آخری مرحلہ
پہلے مرحلے کے بعد 10 دن کے وقفے سے دوسرے مرحلے کا آغاز ہوگا جو 25 اپریل سے 25 مئی تک جاری رہےگا، دوسرے مرحلے میں وفاقی دارلحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی کے ساتھ ساتھ پنجاب کے 20 اضلاع میانوالی، بھکر، خوشاب، سرگودھا، چکوال، جہلم، ساہیوال، اوکاڑہ، خانیوال، ملتان، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب، قصور، گوجرانوالہ، منڈی بہاءالدین، گجرات، بہاولنگر، رحیم یار خان، لودھراں اور چولستان میں مردم شماری ہو گی۔
سندھ کے 21 اضلاع لاڑکانہ، جیکب آباد، بدین، دادو، کشمور، ٹھٹہ، سجاول، میرپور خاص، عمرکوٹ، سانگھڑ، تھرپارکر، سکھر، جامشورو، شکارپور، ٹنڈو الہ یار، ٹنڈو محمد خان، شہداد کوٹ، خیرپور، نوشہروفیروز، مٹیاری، اور شہید بینظیرآباد میں مردم شماری کروائی جائے گی۔
دوسرے مرحلے میں خیبرپختونخوا کے 13 اضلاع بنوں، کوہاٹ، کرک، ٹانک، مالاکنڈ، اپر دیر، لوئر دیر، چترال، سوات، کوہستان، بونیر، شانگلہ جبکہ فاٹا کی 6 ایجنسیز مہمند ایجنسی، خیبرایجنسی، کرم، باجوڑ، جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان میں مردم شماری کی جائے گی۔
دوسرے مرحلےمیں بلوچستان کے 17 اضلاع میں مردم شماری کروائی جائے گی ان اضلاع میں صحبت پور، گوادر، لورالائی، قلعہ سیف اللہ، کچھی، سبی، ہرنائی، بارکھان، شیرانی، مستونگ، قلعہ عبداللہ، چاغی، پنجگور، ژوب، زیارت، خضدار، اور جھل مگسی شامل ہیں، جبکہ آزاد کشمیر میں نیلم، ہٹیاں بالا، حویلی، پونچھ اور میرپور جبکہ گلگت بلتستان میں ہنزہ، شگر، کھرمنگ، استور اور دیامر میں مردم و خانہ شماری کی جائے گی۔
مردم و خانہ شماری کا انتظامی ڈھانچہ
مردم شماری کےلیےملک کے تمام صوبوں کو انتظامی بنیادوں پر بلاکس، سرکلز اور چارجز میں تقسیم کیا گیا ہے، ایک بلاک 200سے 300گھروں پر مشتمل ہے جبکہ 5 سے 7 بلاک مل کر ایک سینس سرکل تشکیل دیتےہیں اور 5 سے 7 سینس سرکل پر ایک چارج بنایا گیا ہے، اسی مناسبت سے ملک بھرمیں 1 لاکھ 68 ہزار سے زائد بلاکس، 20 ہزار سے زائد سینس سرکلز اور 3ہزار سے زائد چارجز بنائےگئے ہیں۔
مردم شماری کی ٹیم
مردم شماری کی ٹیم ایک سول افسر اور فوجی جوان پر مشتمل ہوگی جبکہ ان کے ساتھ پولیس کے جوان بھی ہوں گے، ٹیم میں شامل ہر شمار کنندہ یا enumerators کو 2 بلاکس میں مردم و خانہ شماری کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے، شمار کنندہ ہر بلاک پر 14 دن صرف کریں گے، جس کےلیےپہلے 3 دن شمار کنندہ خانہ شماری کا فارم پُر کیے جائیںگے۔
فارم 1(فہرست خانہ جات)
خانہ شماری کا فارم مردم شماری کے ابتدائی دنوں میں بھرا جائےگا، اس فارم میں علاقے کا نام، عمارت کا سلسلسہ وار نمبر، عمارت کے ہر حصے کی نوعیت، گھرانے کا سلسلہ وار نمبر،گھرکے سربراہ کا نام، شناختی کارڈ نمبراور گھریلو معاشی سرگرمیوں کی معلومات لی جائیں گی۔
فارم 2
ابتدائی 3 دنوں کے بعد شمار کنندہ پہلے بلاک میں مردم شماری کا فارم 2 پر کرے گا، جس کے لیےاس کے پاس 10 دن کا وقت ہوگا، اس فارم میں گھرانے کے سربراہ سمیت تمام افراد کے نام، سربراہ سے رشتہ، جنس، ازداوجی حیثیت، مذہب، مادری زبان، قومیت، خواندگی، پاس شدہ تعلیمی درجہ، گزشتہ بارہ ماہ میں کام سے متعلق تفصیلات، 18 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کے شناختی کارڈ نمبر اور دیگر معلومات حاصل کی جائیں گی۔
جبکہ 1 دن خانہ بدوشوں کے کوائف نوٹ کرنے کےلیےمختص کیا گیا ہے، حالیہ مردم شماری میں پہلی بار خواجہ سراؤں اور خانہ بدوشوں کے کوائف نوٹ کیے جارہے ہیں، جس کے بعد 2 دن کے وقفے سے دوسرے بلاک میں کام کا آغاز کردیا جائے گا۔
فارم 2 اے
البتہ 1998ء کی مردم شماری کے بر عکس فورم 2 اے اس بار نہیں بھرا جارہا، اس فارم میں میں نقل مکانی سے متعلق سوالات جیسے پیدائش کا ضلع، موجودہ ضلع میں رہائش کا عرصہ، سابقہ رہائشی کا ضلع، ضلع سے نقل مکانی کرنے کی وجہ، خواتین میں فرٹیلیٹی کی شرح، بچوں کی پیدائش اور اموات کی شرح اور معذوری سے متعلق اہم سوالات ہوتے ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ نے مردم شماری کے آغاز سے ایک دن پہلے معذوروں سے متعلق اس فارم میں موجودکالم کو مردم شماری کا حصہ بنانے کا حکم جاری کیا ہے۔
مردم شماری کےلیےضروری دستاویزات
وفاقی ادارہ برائے شماریا ت کے مطابق شماری کےلیے گھر میں موجودہ فیملی میں سے کسی ایک کا شناختی کارڈ دکھانا لازمی ہوگا تاکہ ان کی شناخت کی تصدیق کی جاسکے ،وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے حالیہ بیان میں شناختی کارڈ کے علاوہ دیگر مستند دستاویزات کو بھی قابل قبول کر دیا ہے۔
مردم شماری کی اہمیت
حالیہ مردم شماری سے قبل جو پاکستان کی آبادی کے جو بھی اعدادوشمار پیش کئے جاتے ہیں وہ محتاط اندازوں پر مبنی ہوتے ہیں، پاکستان کی حقیقی آبادی کتنی ہے اور ملک کو مستقبل کی پلاننگ کس بنیاد پر کرنی چاہیے، اس کا جواب صرف مردم شماری کے ذریعے ملتا ہے۔
مردم شماری اس لیےضروری ہے کہ اس کی بنیاد پر قومی اسمبلی میں صوبوں، فاٹا اور وفاق کے ماتحت آنے والے علاقوں کی نشستیں مختص کی جاتی ہیں، اس کے علاوہ وفاق اور صوبوں کے درمیان فنڈز بھی اسی کی بنیاد پر تقسیم ہوتے ہیں جبکہ وفاق میں نوکریوں میں کوٹہ بھی مردم شماری کی بنیاد پر طے ہوتا ہے۔
یعنی مردم شماری وسائل کی منصفانہ تقسیم، الیکشن کے لیےنئی حلقہ بندیوں، عوام کو پارلیمنٹ میں منصفانہ نمائندگی دینے، ٹیکس وصولی، شہری مسائل کے حل اور انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ اور پلاننگ کے لیے بہت ضروری ہے۔