28 مارچ ، 2017
کنسنگٹن اوول کا میدان سرفراز الیون کے لیے خوشخبری لایا اور ٹیم نے تجربے اور نئے نوجوانوں کے حوصلے سے جیت کی جانب قدم بڑھا دیا، لیکن اب مقابلہ کوئینز پارک اوول میںہےجہاں اس نے ٹی ٹوئنٹی کے اگلے 3 میچز کھیلنے ہیں۔
کوئنز پارک اوول کا اسٹیڈیم (پورٹ آف اسپین، ٹرینی ڈاڈ) پاکستان کی موجودہ ٹیم کےلیے بالکل نیا ہے اور اس نے آج تک اس میدان پر کوئی ٹی ٹوئنٹی نہیں کھیلا یعنی سرفراز کےلیے یہ میدان ایک نیا چیلنج بن سکتا ہے، البتہ شاہینوں نے اس میدان میں عمران خان، معین خان اور وسیم اکرم کی قیادت میں 6 ون ڈے میچز کھیلےجو ویسٹ انڈیز کے خلاف تھے، جن میں سے 2 میں انہیں جیت ملی جبکہ 4 بار کالی آندھی شاہینوں کو لے اُڑی اور ناکامی ان کا مقدر بنی۔
یاد رہے کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم نے کوئنز پارک اوول میں میں آخری ون ڈ ے 2000ء میں کھیلا تھا، یعنی موجودہ ٹیم میں کوئی کھلاڑی اس گراؤنڈ کا تجربہ نہیں رکھتا، ایسے میں کپتان سرفراز احمد کیا حکمت عملی اپنائیں؟ اس کے لیے ماضی کے اعداد وشمار ان کو صحیح فیصلہ لینے میں مدد کرسکتے ہیں، جس کےلیے کوئنز پارک اوول کی پچ کو بھی ذہن میں رکھنا ہوگا۔
کرکٹ پنڈتوں کے مطابق اس میدان میں ٹیموں کی کوشش ہوتی ہے کہ پہلے کھیل کر بڑا ٹوٹل کریں، کیونکہ ابتداء میں تو پچ فاسٹ بالرز کا ساتھ دیتی ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسپنرز کےلیے مددگار ثابت ہوتی ہے،جو جیت میں ان کی مدد کرسکتے ہیں اور گراؤنڈ کے اعداد و شماربھی یہ ثابت کرتے ہیں، او ڈی آئیز کے 60 سے زائد میچز میں 32 بار جیت پہلے کھیلنے والی ٹیم کے حصے میں آئی جبکہ 29 بار ہار نے معاملات کو خراب کیا، تاہم ویسٹ انڈیز کیلئے او ڈی آئیز میں معاملہ ففٹی ففٹی رہا، اس نے 20 بار پہلے کھیلنے کو ترجیح دی، جس میں 10 بار اُسے جیت ملی جبکہ 10 بار ہی ہار اس کا مقدر بنی۔
ٹی ٹوئنٹی کی بات کی جائے تو حالانکہ یہاں صرف 3 میچز ہوئے لیکن یہاں بھی 2 بار جیت پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم کو ملی، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تینوں میچز ویسٹ انڈیز نے مختلف ٹیموں کے خلاف کھیلے جیسے انگلینڈ، زمبابوے اور انڈیا اور ان میچز میں ویسٹ انڈیز نے او ڈی آئیز کے برعکس مختلف حکمت اپنائی۔
پیس اٹیک میں اپنی صلاحیتوں کو مدنظر رکھا اور اعدا دوشمار کے برخلاف جاتے ہوئے پہلے ہمیشہ فیلڈنگ کو ترجیح دی، جس کا فائدہ اس کے بالر ڈیر ن سیمی نے اٹھایا اور میدان میں سب سے زیادہ یعنی 10وکٹیں لینے میں کامیاب ہوئے لیکن یہ حکمت عملی صرف ایک بار ویسٹ انڈیز کو جیت دلواسکی جبکہ 2بار شکست اس کا مقدر بنی ور مخالف ٹیموں کے اسپنرز نے ان کو جیت کی جانب بڑھنے نہ دیا۔
یہاں آپ کو بتادیں کہ ویسٹ انڈیز کے کپتان کارلوس بریتھویٹ کیلئے بھی اس گراؤنڈ پر کپتانی کا تجربہ نیا ہوگا، اس گراؤنڈ پر ٹی ٹوئنٹی کا سب سے بڑا ٹوٹل 4 جون 2011ءکو انڈیا نے ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلے کھیلتے ہوئے 159 رنز بنایا، جس کے جواب میں ویسٹ انڈیز مقررہ اوور میں صرف 143 رنز بناسکی اور اسپنرز کا شکار ہوکر اپنی قیمتی وکٹیں گنوا بیٹھی جبکہ سب سے کم ٹوٹل کی بات کی جائے تو زمبابوے کے 105 رنز کے جواب میں ویسٹ انڈیز نے 20 اوورز میں صرف 79 رنز بنائے اور ایک بار پھر زمبابوے کے اسپنرز کا شکار ہوئی۔
سرفراز اگر اعدادوشمار کوذہن میں رکھتے ہوئے پہلے بیٹنگ کی جانب جاتے ہیں تو انہیں اپنے تجربے کار بیٹسیمن یعنی کامران اکمل اور احمد شہزاد کو وکٹ پر ٹھہر کر زیادہ سے زیادہ رنز کرنے کی صلاح دینی ہوگی جبکہ بابر اعظم اور شعیب ملک کی جوڑی پر پھر اعتبار کرنا ہوگا تاکہ ویسٹ انڈیز کے فاسٹ بالنگ اٹیک کو روک سکیں جو جیسن ہولڈر، کیسرک ولیمز اور کپتان کارلوس بریتھویٹ پر مشتمل ہوگا۔
اس کے علاوہ سرفراز کو اپنے پیس اٹیک یعنی سہیل تنویر، وہاب ریاض اور حسن علی کو وکٹیں کھڑکانے کیلئے بھی تیار رکھنا ہوگا جبکہ ویسٹ اینڈیز کی اسپن اٹیک کو کھیلنے میں ناکامی کا بھرپور فائدہ اٹھانا ہوگا اور شاداب خان اور عماد وسیم کو ایک بار پھر اسپن کا جادو چلانے کیلئے تیار کرنا ہوگا تاکہ ویسٹ انڈیز کے بلے بازوں کو جم کر کھیلنے کا موقع نہ ملے اور جیت ایک بار پھر پاکستان کے حصے میں آئے۔