خصوصی رپورٹس
15 اپریل ، 2017

حیدرآباد: تپتی ہوا، آگ اگلتے سورج نے زندگی اجیرن کر دی

حیدرآباد: تپتی ہوا، آگ اگلتے سورج نے زندگی اجیرن کر دی

حیدرآباد ان دنوں شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے اور گرمی کی شدت نے شہریوں کو بے حال کر رکھا ہے، تپتی ہوا اور آگ اگلتے سورج نے سب کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔

دفتر ہو یا گھر، اسکول ہو یا پارک کہیں گوشۂ عافیت میسر نہیں لیکن شدید گرمی میں ایسے لوگ بھی ہیں جو دہکتے ہوئے کوئلوں کے نزدیک بیٹھ کر روزی کمانے پر مجبور ہیں، ایسے ہی افراد میں روٹی کے تندور پر کام کرنے والوں کے ساتھ گھروں میں چولہے کےسامنے کام کر کے اپنے اہل خانہ کے لیے کھانا پکانے والی خواتین سب سے زیادہ متاثر ہیں۔

حیدرآباد کے اللہ بچایا کا شمار بھی ان لا تعداد افراد میں ہوتا ہے جو شدید گرمی میں آگ کی بھٹی یا تندور پر کام کر کے روزگار کما رہے ہیں، سخت گرمی میں وہ دہکتے تندور کے سامنے بیٹھ کر گھر والوں کی ضروریات پور ی کرنے کی دھن نے اللہ بچایا کو اس سختی کا عادی کر دیا ہے۔

اللہ بچایا نے بتایا کہ ’’گرمی تو بہت زیادہ ہے اور یہاں تندور پر دگنی ہوتی ہے لیکن کیا کریں مجبوری ہے، بچوں کا بھی تو پیٹ پالنا ہے اور گھر والوں کے سکھ کے لیے انسان کو سب کرنا پڑتا ہے‘‘۔

شدید گرمی میں آگ کی بھٹی یا تندور پر کام کرنے والے مرد ہی نہیں بلکہ گھروں میں کام کرنے والی خواتین بھی حوصلہ مندی سے اپنے خاندان والوں کی خاطر باورچی خانوں میں دہکتے چولہے پر کھانا پکا کر اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہیں ایک خاتون کا کہنا ہے کہ ’’دال، سبزی یا سالن تو چولہے پر چڑھا دیا تو وہ تیار ہو ہی جاتا ہے اور اس کے لیے پورے وقت چولہے کے سامنے نہیں رہنا پڑتا لیکن شدید گرمی میں پورے اہل خانہ کے لیے روٹیاں بنانا، سر سے پاؤں تک پسینے میں نہلا دیتا ہے‘‘۔

لطیف آباد 6نمبر کی رہائشی خاتون کا کہنا تھا کہ ’’شدید گرمی ہے اور لائٹ بھی نہیں ہے، گیس کا پریشر بھی کم ہے مگر کیا کریں، مجبوری ہے بچے اسکول سے آئیں گے تو ان کے لیے کھانا تو پکانا ہے، شوہر آفس سے آئیں گے تو ان کے لیے چائے بنانی ہے پھر گھر والے رات کا کھانا تو کھائیں گے، بازار سے کب تک روٹیاں منگوائیں گے اور پھر تندور کی روٹی سستی تو نہیں کہ ہر وقت منگوا لی، اپنی جیب بھی تو دیکھنی ہے‘‘۔

گھریلو خواتین ہوں یا تندور پر کام کرنے والے نان بائی، گرمی سے سب پریشان ہیں لیکن اس تکلیف کا جھیلنا اس وقت نا ممکن ہوجاتا ہے جب بجلی بھی چلی جائے، اب انسان کرے تو کیا کرے سوا ئےصبرکے۔

مزید خبریں :