13 جولائی ، 2012
کوئٹہ …چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ یہ طے ہے کہ ملک میں صرف آئین اور قانون کی حکمرانی ہوگی ،آئین و قانون سے ماوراء کوئی اقدام قبول نہیں کیا جائیگا۔ہم نے آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھایا ہوا ہے، اگر پارلیمنٹ اور آئین کے خلاف کچھ ہوا تو ہم اسکی سب سے پہلے بھرپور مخالفت کرینگے چیف جسٹس افتخار چوہدری کا بلوچستان بار سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم اس ملک کے لیے جان بھی دیدیں گے،تمام ادارے اپنی حدود میں کام کرنے کے پابند ہیں،عدالتیں ہر جگہ اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں ۔ آجکل اسلام آباد میں مختلف افواہیں گردش کررہی ہیں لہذا میں ان افواہوں کے حوالے سے کہتا ہوں کہ اب صر ف اس ملک میں آئین کی حکمرانی ہوگی۔اگر کسی نے آئین کے خلاف کچھ کیا یا کوئی بھی ماورائے آئین اقدام کیا تو اس کی سب سے پہلے ہم مخالفت کرینگے۔آئین و قانون سے ماوراء کوئی اقدام قبول نہیں کیا جائیگا۔ہم نے آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھایا ہوا ہے، انھوں نے کہا کہ تین نومبر کو ہم نے ایک طریقہ کار بنادیا اب کوئی بھی جج آئین کے علاوہ کوئی اور حلف نہیں اٹھائے گا۔ملک جب ترقی کریگا جب آئین اور قانون کی حکمرانی ہوگی۔آئین کی پابندی کرکے ہی ہم خراب حالات سے نکل سکتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ گھر سے نکلتے ہوئے وہ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ آج میں بھی کام آجاؤں، مگریہ ہمارا عقیدہ ہے کہ الله تعالیٰ نے ہمیں جتنی زندگی دی ہے اس سے ایک دن بھی کم یازیادہ ہم نہیں رہ سکتے۔ اسکے علاوہ کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہہرفرد چاہتا ہے کہ ہرمعاملہ عدالت کے کاندھے پر ڈالدیا جائے، کسی کو ملک کی فکر نہیں، ہمارا وسیلہ اور ٹھکانہ صرف پاکستان ہے،اب نہ گھبرانا اور نہ جھکنا ہے اور نہ مصلحت سے کام لینا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آج پنجاب ، سندھ کراچی، بلوچستان اور کے پی کے سمیت ملک میں صورتحال خراب ہے،بلوچستان سے متعلق غمگین صورتحال سے گزررہے ہیں۔وکلاء کئی کئی گھنٹے بلوچستان کیس کی پیروی کرتے ہیں،پولیس میں بددلیپھیلی ہوئی ہے اور وہ دہشتگردی کے خلاف کارروائی نہیں کرتے۔بلوچستان کے حالات ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے،وہاں رہنے والا کوئی بھی لسانی گروہ محفوظ نہیں،بلوچستا ن کے حالات ہمیشہ سے ایسے نہ تھے۔بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے۔کراچی کی صورتحال بھی پچھلے سال بلوچستان سے بھی بدتر تھی، اس وقت بھی کراچی میں قتل اور اغواء برائے تاوان کی واردتیں ہورہی ہیں۔وہاں ہم نے پندرہ بیس دن بیٹھ کر عدالتی کارروائی کی۔ ہم نے فیصلے کے اس حصے کو اپنا ضابطہ اخلاق بنالیا ہے ،آج پنجاب میں پولیس اہلکاروں کو قتل کردیا گیا۔ان کا کہنا تھا کہبلوچستان میں سماعت سے متعلق کوئی بھی ناامید نہ ہوں۔