24 اگست ، 2017
پیپلز پارٹی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے خورشید شاہ نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکی قیادت کے بیان پر پاکستانی وزیر خارجہ پالیسی بیان جاری کریں اور فوری طور پر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اعتماد میں لیا جائے۔
قائد حزب اختلاف نے کہا کہ حکومت اپوزیشن کے ساتھ مل کر قومی وقار کے تحفظ کے لئے پالیسی تشکیل دے، یہ حکومت یا اپوزیشن کا نہیں بلکہ 22 کروڑ عوام کی خود مختاری کا مسئلہ ہے۔
خورشید شاہ نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر لائحہ عمل بنایا جائے اور وزیراعظم اس ضمن میں ٹھوس اقدامات کے ساتھ سامنے آئیں۔
دوسری جانب پیپلزپارٹی کی ہی رہنما شیریں رحمان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنی ٹوئٹس میں کہا کہ امریکی کی نئی افغان پالیسی سے متعلق میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی تجویز دوں گی اور ایک اجلاس ان کیمرا بھی ہونا چاہیے۔
شیریں رحمان نے کہا کہ نئی افغان پالیسی پر چین جاگ رہا ہے اور اس میں کوئی گمان نہیں ہونا چاہیے کہ کون سو رہا ہے۔
پیپلزپارٹی کی رحمان نے کہا کہ امریکی صدرکےبیان پرحکومت نےسارادن مجرمانہ خاموشی اختیار کی، وقت ضائع کرنے کے بجائے تمام عالمی فورمز کو استعمال کرنا چاہیے اور سعودی عرب کے بعد چین، روس اور ایران سے بھی رابطے کرنے چاہییں۔
شیریں رحمان کا کہنا تھا کہ حکومت 10 روز کے اندر پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کرے، ملک کسی صورت آٹو پائلٹ پر نہیں چل سکتا، حکمران اپنی ذات کے لئے بات کرتے ہیں لیکن ملک کے لیے بات نہیں کرتے، حکومت کو سیاسی جماعتوں کو فوراً اعتماد میں لینا چاہیے۔
گزشتہ روز چیرمین تحریک انصاف عمران خان نے بھی امریکی صدر کے بیان کے بعد پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ٹرمپ وہی زبان استعمال کر رہے ہیں جو بھارت پاکستان کے خلاف استعمال کرتا ہے۔
خیال رہے کہ 22 اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان، افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق نئی پالیسی کا اعلان کیا تھا۔
صدر ٹرمپ کا پالیسی اعلان کے موقع پر خطاب کے دوران کہنا تھا کہ پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں مگر وہ دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے، پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہیں گے۔
پاکستان کے خلاف سخت رویہ اپناتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں ہمارا ساتھ دینے سے پاکستان کو فائدہ اور دوسری صورت میں نقصان ہوگا۔
امریکی صدر نے اپنے خطاب میں بھارت کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں بھارت کے کردار کے معترف ہیں اور چاہتے ہیں کہ بھارت افغانستان کی معاشی ترقی میں کردار ادا کرے۔