22 ستمبر ، 2017
ینگون: پاکستان کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے حق میں آواز اٹھانے پر میانمار نے پاکستانی سفیر کو طلب کرلیا ہے۔
سفارتی ذرائع نے جیو نیوز کو بتایا کہ روہنگیا مسلمانوں سے متعلق پاکستان کے بیان پر میانمار نے پاکستانی سفیر ڈاکٹر خالد میمن سے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
رواں ماہ کے آغاز میں پاکستان نے میانمار کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام پر احتجاج ریکارڈ کرایا تھا اور مظالم روکنے کے لیے موثر اقدامات کا مطالبہ کیا تھا۔
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کی نسل کشی جاری ہے اور گزشتہ چند ماہ کے دوران خواتین اور بچوں سمیت سیکڑوں افراد مارے جاچکے ہیں جبکہ لاکھوں بنگلہ دیش نقل مکانی کرنے پر مجبور ہیں۔
دنیا بھر میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خلاف غم وغصہ بڑھ رہا ہے اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
اس سے قبل مسلم ملک مالدیپ نے بھی روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے خلاف احتجاجاً میانمار سے تجارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
جب کہ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اینٹونیو گٹرس نے میانمار کو خبردار کیا ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے ساتھ کئے جانے والے سلوک کا سلسلہ جاری رہا تو پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہوجائے گا۔
اس صورتحال میں جب کہ لوگ گھروں میں بیٹھے پریشانی اور کرب میں مبتلا ہیں یا بنگلادیش میں امداد ہر دھیان دے رہے ہیں حیدرآباد کے تاجر ذاکر علی براہ راست رنگون آن پہنچے ہیں تاکہ کسی طرح یہاں کے پھنسے ہوئے روہنگیا مسلمانوں تک مدد پہنچا سکیں۔
پاکستانی حکومت سے 10 روہنگیا خاندان پاکستان میں بسانے اور خرچ اٹھانے کا کوئی جواب نہ ملنے پر یہ میانمار پہنچے ہیں۔
بنگلا دیش اور پاکستانی سفارت خانوں سے جواب ملنے کے بعد اب یہ مایوس ہیں کہ خود مدد نہیں پہنچا سکتے جو کہ انہوں نے ینگون سے خرید کر متاثرین میں بانٹنا تھا۔
ان کا مایوس چہرہ اور مدد کی تڑپ دیکھ کر دل متغیر کیفیات کا شکار بھی رہا اور زہن میں ایک شخص کی تصویر بھی ابھری اس ہستی کا نام عبدالستار ایدھیہے۔
ایدھی صاحب 2009ء میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے وقت قاہرہ میں امدادی قافلے اور سامان کے ساتھ موجود تھے اور غزہ میں داخلے کے منتظر تھے۔
پیرانہ سالی کے باجود ناممکن جگہوں پر پہنچنا ایدھی صاحب کی عادت تھی اور انسانی خدمت اور خلوص ان کے گوشت پوست میں بسا ہوا تھا۔
پاکستان سے بس ایک پراپرٹی ٹائیکون اور ایک اسٹاک بروکر نے میانمار میں پاکستانی سفارت سے خانے سے مدد کی تفصیل مانگی تھی اور یا صرف حیدر آباد کا تاجر تڑپ کر یہاں پہنچا ہے۔
ایدھی صاحب نہیں رہے تو میانمار کے اس امداد کے منتظر علاقے میں پاکستانیوں کی مدد بھی نہ پہنچ سکی۔