بیرونی امتحانات میں گھری متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی پتنگ کو سال 2017 میں اندرونی اختلافات کی تند و تیز ہوا کا سامنا رہا۔
28 دسمبر ، 2017
یوں تو پاکستانی سیاست مجموعی طور پر رواں برس بہت سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہی، لیکن اگر کراچی کے سیاسی منظر نامے اور بالخصوص متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان پر نظر ڈالی جائے تو صورتحال کچھ بہت مختلف نظر نہیں آئے گی۔
بیرونی امتحانات میں گھری متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی پتنگ کو سال 2017 میں اندرونی اختلافات کی تند و تیز ہوا کا سامنا رہا۔
متحدہ نے جہاں 'نمبر گیم' کے حوالے سے قومی سیاست میں کردار ادا کیا وہیں رواں برس نومبر میں پاک سرزمین پارٹی (پی ایس پی) کے ہاتھوں 'پتنگ' کٹتے کٹتے بچی، دوسری جانب فاروق ستار نے سیاست میں 'امی ڈپلومیسی' بھی متعارف کرادی۔
الغرض 2016 میں بانی قائد کی ایک 'تقریر' کے بعد ٹوٹ پھوٹ سے گزرنے والی متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے لیے 2017 کا آغاز امید جبکہ اختتام بحران لایا۔
یہاں ہم 2017 میں ایم کیو ایم پاکستان کی سیاست کا مختصر جائزہ لے رہے ہیں۔
رواں برس قومی اسمبلی میں نیا اپوزیشن لیڈر لانے کی خواہش نے روایتی حریف سمجھی جانے والی پاکستان تحریک انصاف کو ایم کیو ایم کے عارضی مرکز لاکھڑا کیا تو شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم منتخب کرانے کے لیے گورنر سندھ نے بھی بہادرآباد یاترا کی۔
2017 میں ہی متحدہ پاکستان نے آل پارٹیز کانفرنس ( اے پی سی) کا اعلان کرکے باغی دھڑوں پی ایس پی اور مہاجر قومی موومنٹ سے ہاتھ ملایا، لیکن دیگر سیاسی جماعتوں کے بائیکاٹ نے متحدہ دھڑوں کے انضمام کی اس پہلی کوشش کو ناکام بنا دیا، جس کے بعد ایم کیو ایم پاکستان نے بھی اے پی سی ملتوی کرکے ریورس گئیر لگالیا۔
ایم کیو ایم پاکستان میں اندرونی دراڑ، چند ماہ قبل ہی پارٹی جوائن کرنے والے کامران ٹیسوری کو ڈپٹی کنوینئر بنانے سے پڑی اور سینئر رہنما اس 'آؤٹ آف ٹرن' پروموشن سے ناخوش دکھائی دیئے۔
رکن قومی اسمبلی سلمان مجاہد بلوچ، پارٹی پالیسی کے خلاف بات کرنے پر نکالے گئے تو سینیٹر میاں عتیق کو سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دینے کی قیمت پارٹی رکنیت سے ہاتھ دھوکر چکانا پڑی۔
رکن صوبائی اسمبلی محمود رزاق پی ایس پی کو پیارے ہوئے لیکن ایم کیو ایم کے لیے بڑا دھچکا ڈپٹی میئر ارشد وہرہ کی پی ایس پی میں اچانک شمولیت تھی۔
5 نومبر کو لیاقت آباد میں کامیاب جلسے نے ایم کیو ایم کو دوبارہ بارگیننگ پوزیشن میں لاکھڑا کیا، لیکن یہ پوزیشن 3 دن میں ہی ڈگمگا گئی اور فاروق ستار پریس کلب میں مصطفیٰ کمال کے ہمراہ بیٹھے نئے نام اور نئی شناخت کے ساتھ سیاسی اتحاد کا اعلان کرتے پائے گئے، جس کے بعد معاملات حالات کے رحم و کرم پر آگئے۔
ایک جانب رکن قومی اسمبلی علی رضا عابدی نے پارٹی چھوڑنے کااعلان کیا تو دوسری جانب ڈاکٹر فاروق ستار کے خلاف محاذ کھل گیا۔
9 نومبر کو 'فاروق ستار کا ایکشن' بانی ایم کیو ایم کا 'ایکشن ری پلے' ثابت ہوا اور ساتھیوں کے رویے سے روٹھ کر فاروق ستار نے سیاست چھوڑنے کا اعلان تو کیا ہی، ساتھ میں پی ایس پی کے ساتھ 'اتحاد باالجبر' کا پول بھی کھول دیا۔
بالآخر سب کے سامنے 'میں نہ مانوں' کی رٹ لگانے والے فاروق ستار 'امی' کے آگے ہار مان گئے اور پارٹی میں واپسی کے اگلے ہی دن فاروق ستار نے ڈیڑھ سال بعد جناح گراؤنڈ میں یادگار شہداء پر سیکڑوں کارکنوں کے ہمراہ حاضری دی۔
بعدازاں رواں ماہ کے آغاز میں پی ایس پی سے انضمام کے باعث ناراض ہونے والے علی رضا عابدی بھی مان گئے اور انہوں نے پارٹی میں واپسی کا اعلان کردیا۔
رواں ماہ اندرون سندھ جلسوں سے قبل ڈپٹی کنوینئر کامران ٹیسوری روٹھ گئے اور انہوں نے پارٹی کے اندرونی اختلافات کی تصدیق کی۔
بلآخر یہاں بھی 'امی ڈپلومیسی' کام آئی اور رات گئے فاروق ستار کی والدہ اپنے منہ بولے بیٹے کو منانے ان کے گھر پہنچیں اور متحدہ پاکستان کو 'متحد' کرگئیں۔
لیکن سنا ہے، ایم کیو ایم پاکستان کے لیے 'آزمائش' ابھی ختم نہیں ہوئی اور آج ہی کورنگی سے منتخب ہونے والے شیراز وحید بھی پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہوگئے۔
جبکہ اس سے قبل رواں ماہ کے آغاز میں سلمان مجاہد بلوچ بھی پی ایس پی میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اگلا برس ایم کیو ایم پاکستان کے لیے کیسا رہتا ہے، کیا اسے مزید اتار چڑھاؤ کا سامنا کرنا پڑے گا یا سیاسی استحکام اس کا مقدر ہوگا۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔