سانحہ 12 مئی روکنے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کوفون کیے لیکن کسی نے بات نہیں مانی، عشرت العباد

دبئی(حصہ دوم) عشرت العباد پرویز مشرف کی معزول چیف جسٹس کےساتھ لڑائی اور لندن سے راولپنڈی کی طرف تبدیلی کی اندرونی کہانی یوں بیان کرتے ہیں۔ 

جنرل مشرف دورانِ صدارت اپوزیشن سے لڑرہے تھے جو مشترکہ طور پر معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کوسپورٹ کررہی تھی۔ معزول جج نےاسلام آباد سے 24گھنٹے کے سفرکےبعد لاہور کا تاریخی دورہ کیا۔ ان کے ساتھیوں نے سندھ میں حکمران پی ایم ایل اور ایم کیوایم کومشترکہ طور پر شکست دینے کا فیصلہ کیاتھا۔ 

12مئی 2007کوکراچی میں وکلاءسے خطاب کیلئے معزول جج کو صوبائی بار کی جانب سے ایک دعوت نامہ موصول ہوا۔ حالات اس وقت مزید خراب ہوگئے جب ایم کیوایم نے بھی اسی دن جنرل مشرف کے حق میں ایک ریلی نکالنے کا اعلان کردیا اور پی پی پی، اے این پی اور ایم ایم اےنے بھی سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے دلدل میں کودنے کا اعلان کیا۔ 

یہ واضح ہوگیا تھا کہ 12 مئی کو ایک خونی کھیل کھیلا جائےگا کیونکہ تمام سیاسی جماعتیں جو ایک دوسرے کے خلاف تھیں، انھوں نے سڑکوں پرایک دوسرے کے خلاف مظاہروں کا اعلان کردیاتھا۔ رینجرز اور پولیس دونوں اکٹھے اُن سے نہیں نمٹ سکتے تھے۔ 

یہاں ڈاکٹر عشرت العباد نےتمام کھلاڑیوں کےساتھ بیک ڈور بات چیت کا آغاز کیا اور کراچی کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو فون کرنا شروع کردیئے تاہم کسی نے بھی بات نہیں مانی جس کے باعث اس دن 56 افراد مارے گئے۔ 

ڈاکٹرعشرت العباد نے اُس دن اپنی بے بسی کے بارے میں بتاتے ہوئےکہا کہ، ’’ میں نےتمام لوگوں کو احتجاج سے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن کسی نے بات نہیں سنی۔‘‘ 

تاہم انھوں نےسندھ کے سابق چیف جسٹس صبیح الدین کے کردار کو سراہا جنھوں نے لوگوں کی حفاظت کی خاطر حالات بدلنے کی بہت کوشش کی، لیکن گورنر کی طرح وہ بھی ناکام رہے۔ 

میں نے ایک سادہ سوال کیاکہ 12مئی کے لیے آپ کے خیال میں کون ذمہ دار ہے۔ ڈاکٹرعشرت العباد نے مختصرجواب دیاکہ ’’تمام اسٹیک ہولڈرز۔‘’ 

عوامی نیشنل پارٹی کےصوبائی سربراہ شاہی سید کا مردان ہاؤس، جو رہائش گاہ کے ساتھ آفس بھی تھا، وہ جگہ اُن لوگوں کیلئے مرکز بن چکی تھی جو اس دن کے شہداء کیلئے فاتحہ خوانی کرنا چاہتےتھے۔ 19مئی کوعشرت العباد کو ایک انٹلیجنس رپورٹ موصول ہوئی کہ اے این پی 12مئی کومرنےوالوں کیلئے 3روزہ سوگ کا اعلان کرناچاہتی ہے۔ یہ واضح تھا کہ سوگ کیلئے مجوزہ تاریخوں یعنی مئی کی 26، 27 اور 28 کو مزید لاشیں گرنی تھیں۔ 

انھوں نے ایک بار پھر پہل کرتے ہوئے اے این پی کے سربراہ اسفند یارولی کو فون کیا جو اس وقت کراچی میں مردان ہاؤس میں موجود تھے۔ عشرت العباد نےاسفندیارولی سےکہا کہ،’’ میں تعزیت کیلئے آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں۔‘‘ غیرمتوقع طور پر پٹھان رہنما نے یہ کہتے ہوئے انکار کردیا کہ، ’’ آپ نہ آئیں کیونکہ یہاں لوگ بہت جذباتی ہیں اور کوئی بھی آپ کو گالی دے سکتاہے اور یہ ہماری ثقافت کے خلاف ہے۔ 

عباد نے جواب دیاکہ میں اب راستے میں ہوں ثقافت کی حفاظت کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔ اگلے ہی گھنٹے عباد مردان ہاؤس میں تھے، یہ کسی بھی مہاجر رہنما کا اے این پی کے ہیڈکوارٹرز کا پہلادورہ تھا۔انھوں نے فاتحہ پڑھی اور اسفندیار ولی کو سائیڈ پر لے جاکر بتایا کہ شہرمیں پہلے ہی بہت خون خرابا ہورہاہے اگر آپ مزید احتجاج کا اعلان کریں گے تو مزید لاشیں گریں گی۔ 

ڈاکٹر عشرت العباد نے یاد کرتے ہوئے بتایاکہ،’’ میں نے اسفند یار صاحب کو بتایا کہ چونکہ آپ کے گھر یہ میرا پہلا دورہ ہے لہٰذا میری درخواست مان لیں، اُن کی مہربانی تھی کہ انھوں نے میری بات مان لی اور کہا کہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ میں ٹھیک تھا۔‘‘ 

دوسری سیاسی جماعتوں کو منانے کیلئے عباد نے پی پی پی، ایم کیوایم، جےآئی اور جےیوآئی (ف) کے رہنماؤں سے بھی ملاقات کی۔ سب نے ان کے ساتھ تعاون کیا۔ لہذا ایک اور ممکنہ بحران ٹل گیا۔ 

جنرل مشرف کی جانب سے 3نومبر 2007 کی کارروائی: چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے بعد دونوں ہی جنرل مشرف کی زیرقیادت حکومت اورعدلیہ ایک ساتھ نہیں تھے۔ 3نومبر کو جنرل مشرف نے ایمرجنسی نافذ کردی۔ میں یہ جاننے کیلئے بےتاب تھا کہ اس اقدام سے قبل حکومت کو اعتماد میں لیاگیاتھا یا نہیں اور اس وقت حکومتی اداروں کا کیا ردعمل تھا؟ 

ڈاکٹرعشرت العباد نے یاد کرتے ہوئے بتایاکہ،’’ ہاں غالباً اکتوبرکےآخری ہفتے میں حکومت کو اعتماد میں لیا گیا تھا اور 3 نومبر کو ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ،’’ ہمیں بتایا گیا تھاکہ مختصر مدت کیلئےمیڈیا کے ایک حصے پربھی پابندی عائد کی جائےگی۔‘‘ 

جنرل مشرف کمزورسے کمزور تر ہوتےگئے: انتخابات سے قبل جنرل مشرف نے وردی اتاردی تھی اور نومبر 2007 کوملٹری کمانڈ جنرل کیانی کے سپرد کردی۔ اس سے پہلے بے نظیر بھٹو نے 18اکتوبر کو واپسی کااعلان کردیاتھا۔ ان کی آمد سے قبل اُن پرحملے کا خطرہ تھا۔ 

عشرت العباد نے یاد کرتے ہوئے بتایاکہ،’’حالات بالکل اسی طرح ہوگئے تھے جس طرح رپورٹس میں پیش گوئی کی گئی تھی۔ اس روز صدر مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز گورنر اور وزیرِاعلیٰ سے مستقل رابطے میں تھے۔ آدھی رات کو جب حملہ ہوا تو پہلے 30 منٹ تک تو حکومت کو حملے کی نوعیت کے بارے میں پتہ ہی نہیں لگا۔ جیسے ہی بے نظیر بھٹو اپنے گھر پہنچی اور میں نے اُن سے خیریت دریافت کی تومشرف صاحب نے مجھے فون کیا اور میں نے انھیں بتایا کہ میں نے بے نظیر بھٹوسے بات کرلی ہے۔‘‘ انھوں نے تسلیم کیاکہ بے نظیر بھٹو کی آمد پر ہوئے حملے سے متعلق تحقیقات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔ 

بدقسمتی سےدسمبر میں بےنظیر بھٹو راولپنڈی میں قتل کردی گئیں اور پہلے ہی کشیدہ ماحول مزید کشیدہ ہوگیا۔ معزول ججز تاحال بحالی کے منتظر تھےاور معاملہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بگڑرہاتھا۔ 

جون، جولائی 2008 میں خفیہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد عشرت العباد نے پہل کرنے کا آغاز کیا اور راولپنڈی چلے گئے۔ صدر مشرف سے اجازت لینے کے بعد وہ خاموشی سے معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کے گھر چلے گئے۔ معزول چیف جسٹس نے اُن کااستقبال کیا اور گورنرکےساتھ اپنے گھر میں داخل ہوتے ہوئے ایک تصویر کی جانب اشارہ کیا جس میں وہ جنرل مشرف سے حلف لے رہے تھے، انھوں نے کہاکہ، ’’ میں نے ابھی تک اس تصویر کو گُم نہیں ہونےدیا۔‘‘ 

معزول چیف جسٹس نےواضح اشارہ دیاکہ وہ تاحال مذاکرات کیلئے تیار ہیں۔ ان کےگھر میں ڈاکٹرعشرت العباد کی شاندار دعوت کی گئی۔ پھر افتخار چوہدری نے ان سے لان میں آنے کو کہا، بظاہر انھیں یقین تھاکہ ان کے گھر کی نگرانی کی جارہی ہے اور وہ جاسوسی کے آلات سے بچ رہے تھے۔ لان میں مذاکرات شروع ہوئے۔ معزول چیف جسٹس نے اپنے پت ےظاہرکرتے ہوئےعشرت العباد کو کہا کہ ’’ میں عزت کے ساتھ بحالی چاہتا ہوں۔‘‘ عباد نے انھیں یقین دلایا کہ،’’ بحالی آپ کی مرضی کے مطابق ہوگی اور اسی طرح ہوگی جس طرح آپ چاہتے ہیں۔‘‘ 

دونوں کے درمیان یہ ملاقات پانچ گھنٹے تک جاری رہی۔ یہاں عباد نے ملاقات کے چند اہم نکات بتانے سے انکارکردیا، تاکہ وہ سابق چیف جسٹس کے اعتماد کو برقراررکھ سکیں۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے یاد کیاکہ، ’’اس ملاقات میں افتخار چوہدری واضح اورسنجیدہ تھے۔ اتنی کامیابی حاصل کرنے کے بعد وہ آرمی ہاؤس پہنچے اور اہم پیش رفت سے متعلق جنرل مشرف کو آگاہ کیا کیونکہ انھوں نے صورتحال بدل دی تھی۔ 

مشرف گورنر سندھ کی کامیابی کے بارے میں سن کر پُرجوش ہوگئے۔ نوجوان گورنر نے جنرل مشرف کو مشورہ دیاکہ بحالی کا نوٹی فیکیشن جاری کیاجائے اور اپنی بیوی کے ہمراہ معزول چیف جسٹس کے گھر جاکر خود ان کے حوالے کیاجائے۔ مشورہ بالکل سیدھا سادھا تھا لیکن جنرل مشرف کے گرد بیٹھے مشیروں نےیہ کہتے ہوئے اِسے پیچیدہ بنادیاکہ اب ججوں کو بحال کرنے کا اختیار وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے پاس ہے اور صرف وہ ہی نوٹی فیکیشن جاری کرسکتے ہیں۔ 

ڈاکٹرعشرت العباد نے کہاکہ، ’’میں نے اپنے ساتھیوں کو بتایاکہ اگر ججوں کی بحالی کا نوٹی فیکیشن جاری ہوجائے تو اِسے چیلنج کرنے کی کسی کو جرات نہیں ہوگی کہ یہ قانونی ہے یا غیرقانونی۔‘‘ 

مشاورتی عمل کے دوران جنرل مشرف نےڈاکٹرعشرت العبادکو بتایا کہ معزول چیف جسٹس کا مطالبہ پورا نہیں ہوگا۔ اس لمحے اپنی عزت بچانے کی خاطر ڈاکٹرعشرت العباد نے ایک بار پھر معزول چیف جسٹس کے گھر گئے اور انھیں کہا کہ وہ خود نوٹی فیکیشن کاڈرافٹ تیار کریں اوران کے حوالے کردیں ۔ ابتدائی طور پر افتخار چوہدری نے بات مان لی کہ وہ یہ کریں گے لیکن بعد میں کہاکہ صرف وزیراعظم ہی یہ کرسکتے ہیں۔ یہاں عشرت العباد نے حقائق سے لاعلمی ظاہر کرتے ہوئے واپسی کی راہ لی اور بتایا کہ یوسف رضاگیلانی کے ہاتھ میں ہی ہے۔ ڈاکٹرعشرت العباد واپس کراچی روانہ ہوگئے۔ 

عباد نے یاد کیا کہ،’’ دونوں ہی جنرل مشرف اور معزول چیف جسٹس تمام معاملات طے کرناچاہتے تھے لیکن دونوں قانون کی کسی شِق کی خلاف ورزی نہیں کرناچاہتےتھے۔ حالات جوں کے توں ہی رہے اور پھر اگست 2008 آگیا جب پی پی پی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور پی ایم ایل (ن) کے نواز شریف نے اتحاد کیا اور جنرل مشرف کے مواخذے کااعلان کیا۔ 

17 اگست 2008کو رات 8 بجے ڈاکٹر عشرت العبادآرمی ہاؤس راولپنڈی میں جنرل مشرف سے ملے، جہاں مشرف نے بتایاکہ ان کے خلاف مواخذہ واضح ہے۔ 

عباد نے مشرف سے کہا کہ، ’’ مجھے کچھ وقت دیں ، میں آپ کے پاس واپس آتا ہوں۔‘‘ غالباً اس وقت ساڑھےبارہ بجے کاوقت تھا جب عباد نے مشرف کو کچھ اطلاعات دینےکیلئے فون کیا۔ مشرف نے عباد کو بتایاکہ اب بہت دیر ہوچکی ہے، اب سوجاؤ اور صبح اس پر بات کریں گے۔ درحقیقت عباد کوپتہ لگاتھاکہ اپوزیشن جنرل مشرف کا مواخذہ نہیں چاہتی، لیکن تاحال انھیں یہ معلومات مشرف کو دیناتھیں۔ 

اگلی صبح انھوں نے جنرل مشرف کی پریس کانفرنس کی خبر سنی اور اسی دن قوم سے خطاب کے ذریعے جنرل مشرف نے باقاعدہ اقتدارچھوڑنےاور استعفےکااعلان کردیا۔ وہ صدر مشرف سے ملاقات کرنےکیلئے ایوان صدرپہنچے۔ 18اگست 2008 کےدن ایوان صدر میں موجود اعلیٰ حکام میں ڈاکٹر عشرت العباد ایک تھےاور انھوں نے مشرف کیلئے نیک تمناؤں کااظہارکیااور انھیں الوداع کہا۔ 

اِس صحافی نے پوچھا کہ کیا واقعی مشرف فوج پر بوجھ بن چکے تھے؟ ڈاکٹرعشرت العباد نے بتایاکہ، ’’مجھے نہیں پتہ لیکن ایسا لگتاہے، کیونکہ انھیں درست انٹلیجنس رپورٹ نہیں دی جارہی تھی۔ مجھے یاد ہے وہ فُل کورٹ کافیصلہ جب انھیں یقین تھا کہ ججز ان کے حق میں فیصلہ دیں گے لیکن اس کے برعکس ہوگیا۔ 

میں نے سوال کیاکہ، ’’لہذا اس کا مطلب ہے کہ انھیں اراداتاً غلط انٹلیجنس رپورٹ دی گئی تھی۔‘‘ انھوں نے جواب دیاکہ، ’’ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ جنرل مشرف کو غلط انٹلیجنس رپورٹ دی گئی تھی یا غلط انٹلیجنس رپورٹ حاصل کی گئی تھی۔‘‘ حتیٰ کہ اقتدار سے باہر رہ کر بھی عباد اپنے سابقہ باس کو نہیں بھول سکتے جس کے ساتھ انھوں نے چھ سال گزارے۔ 

ایک بار انھوں نے جنرل مشرف کو بھی گورنر ہاؤس ڈنر کیلئےدعوت دی لیکن دعوت دینے کے بعد انھوں نےآصف زرداری کو بھی فون کردیا اور بتایاکہ انھوں نے مشرف کو ڈنر پر بلایا ہے۔ انھیں دونوں کے تعلقات کی نوعیت کے بارے میں علم تھا، پھر بھی زرداری نے کھلے دل سے عباد کو اجازت دےدی۔ حتیٰ کہ جنرل مشرف کے جانے کے بعد گورنر سندھ کی اقتدار میں مرکزی حیثیت قائم رہی۔ 

لندن سے راولپنڈی: 27جون 2011کو ڈاکٹرعشرت العباد کو ایم کیوایم لندن سےایک کال موصول ہوئی، ’صدرکو فوراً اپنا استعفیٰ پیش کردو۔ یہ کال اس وقت موصول ہوئی جب انھوں نے صومالیہ کے بحری قذاقوں کی جانب سے اغوا کیے گئےپاکستانیوں کو آزاد کرانے میں کامیاب کرداراداکیاتھا۔ واقعے کو میڈیا کی توجہ اس لیے حاصل ہوئی کیونکہ اغواہونے والے بحری جہاز میں بھارتی شہری بھی تھے لیکن بھارتی حکومت اور اُن کے کاروباری افراد اپنے شہریوں کے مدد کے لیے آگے نہیں بڑھے۔ یہ صرف ڈاکٹرعشرت العباد کا کام تھا۔ 

گورنرنےکاروباری افراد کے ساتھ مل کرپیسے اکٹھے کیے، عسکری مدد آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل پاشا اور یقیناً پاکستان نیوی سے لی۔ 6 پاکستانیوں سمیت 22افراد کو بحفاظت بچالیاگیاتھا۔ ان کے خاندان جنھوں نے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کی توجہ اس معاملے کی جانب دلائی تھی وہ بے حد خوش ہوئے۔ ایک دن قبل ان کےاستقبال کے لیے تقریب کا اہتمام کیاگیا، ان میں خاص طور پر ملک اور افواج پاکستان بالخصوص پاکستان نیوی اور انٹلیجنس سروسز کی کارکردگی پر روشنی ڈالی گئی تھی لیکن چند دن بعد انھیں لندن سے ایک کال موصول ہوئی۔ ڈاکٹر عشرت العباد نے بتایا کہ میں مایوس تھا اور میرے پاس جانے کے سوا کوئی راستہ نہ تھا۔ 

انھوں نے بروزِ جمعہ ہی استعفیٰ دے دیا اور دبئی روانہ ہوگئے۔ یہ پہلی بار نہیں تھا کہ انھوں نے استعفیٰ دیاہو بلکہ یہ پانچویں بار تھا جو وہ مستعفیٰ ہورہے تھے۔ اسی دوران انھیں ڈی جی آئی ایس آئی جنرل پاشا کی کال موصول ہوئی جو اسٹریٹجک ڈائیلاگ کیلئے امریکا روانہ ہورہے تھے لیکن وہ امریکا روانگی سے قبل ان سے ملاقات کرناچاہتےتھے۔ وہ طیارے میں سوار ہوئے اور دبئی ائیرپورٹ پر اترگئے۔ 

پیغام کے مطابق ڈاکٹر عشرت العباد دبئی انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر ان کا انتظار کررہے تھے۔ ہم آپ کو اطلاع دینا چاہتے ہیں کہ آپ کا استعفیٰ قبول نہیں کیاگیا آپ واپس جائیں اور بطور گورنر اپنا کام شروع کریں۔ جنرل پاشا نے اس کے علاوہ کچھ حیران کن تفصیلات بھی بتائیں، لیکن ڈاکٹر عشرت العباد وہ سب بتانے پر تیار نہیں ہوئے۔ 

عباد نے واضح طور پر انھیں بتایا کہ، ’’یہ حیران کن ہے لیکن جب تک مجھے پارٹی کی جانب سے حکم نہ ملے میں بطور گورنر دوبارہ کام کرنا نہیں چاہتا۔ جنرل پاشا یہ کہتے ہوئے اپنی منزل کی جانب چلے گئے،‘‘ ٹھیک ہے لیکن کچھ دیر کیلئے یہاں ہی رُک جائیں۔‘‘ اسی دوران پاکستان میں تعینات برطانوی ہائی کمشنر سر ایڈم تھامسن اور کراچی میں تعینات قونصلیٹ مسٹر فرانسس نے بھی ڈاکٹر عشرت العباد سےدوبارہ کام شروع کرنےکیلئے رابطہ کیا کیونکہ وہ بھی کراچی کے حالات کے بارے میں پریشان تھے۔ 

بطور گورنر اُن کی کارکردگی کے باعث مسٹر فرانسس کے عشرت العباد کےساتھ قریبی تعلقات تھے۔ ڈاکٹر عشرت العباد 22 دن تک ایک ہوٹل میں کمرے تک محدود رہے۔ باہری دنیا کے ساتھ ان کا تعلق صرف ان کے موبائل کے ذریعے ہی تھا۔ اسی دوران ایک برطانوی سفارتکار نے اُن سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور بتایاکہ برطانوی حکومت نے بانی ایم کیوایم کو ایک خط لکھاہےکہ آپ کو بطور گورنر کام کرنے دیں اور جلد بانی ایم کیوایم انھیں کال کریں گے۔ 

عشرت العباد کیلئے یہ ناقابلِ یقین تھا۔ جولائی کے تیسرے ہفتے میں انھیں بانی ایم کیوایم کی کال موصول ہوئی۔ ’’میں نے فیصلہ کیاہے کہ آپ دوبارہ بطورِ گورنرکام شروع کریں، بانی ایم کیوایم نے عشرت العباد کو کہا جو پہلےہی اُن کے حکم کےمطابق استعفیٰ دےچکےتھے۔ ’’بھائی، میں پہلی ہی استعفیٰ دے چکاہوں، میں خود بھی اب کام نہیں کرناچاہتا، ‘‘ عباد نے جواب دیا۔ 

بانی ایم کیوایم نے اپنا غصہ دکھایا، ’’ تمھیں میری بات ماننی ہوگی میں تمھیں حکم دے رہاہوں۔‘‘ پھر انھوں نے عباد کو قلم اور کاغذ اٹھانےکاحکم دیا اور انھیں چھ مختلف مطالبات لکھوائے، عباد کو ہدایت کی کہ وہ صدر زرداری کو فون کریں اور انھیں ایم کیوایم کے مطالبات سے آگاہ کریں اور انھیں بتائیں کہ وہ حکومت کے ساتھ اسی صورت میں کام کریں گے اگر مطالبات مان لیے جائیں۔ 

عباد نے صدر زرداری کو کال کی۔ آصف زرداری نے عباد سےکہا،‘’ میں سب جانتا ہوں تم بس واپس آجاؤ۔‘‘ عباد نے وہی جواب دیا جو وہ بانی ایم کیوایم سے کہہ چکےتھے۔ 

تب زرداری نے دوبارہ بانی ایم کیوایم کو فون کیا اور سربراہ ایم کیوایم سے عباد کو دوبارہ کال کرنے کاکہا کہ وہ اُن پردوبارہ ڈیوٹی شروع کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں۔ اس بار انھوں نے بات مان لی۔ 

صدر آصف زرداری ڈاکٹرعشرت العباد کولینے کے لیےاپنا خاص طیارہ بھیجا۔ 19جولائی 2011کو عباد نے بطور گورنردوبارہ کام شروع کردیا۔ چند دن بعد گورنر سندھ کو آرمی ہاؤس راولپنڈی دعوت دی گئی جہاں وہ آرمی چیف جنرل کیانی اورآئی ایس آئی کےسربراہ جنرل پاشا سے ملے۔ 

ذاتی طور پر میرا خیال ہے کہ یہ ہی وہ ملاقات تھی جب انھوں نے راولپنڈی کے ساتھ اتحاد کرنے اور لندن کا ساتھ چھوڑنے کافیصلہ کیا، یعنی جوان گورنر کی وفاداریاں لندن سے راولپنڈی کی جانب ہوگئیں۔

ڈاکٹر عباد نےکہا، ’’مجھے مختلف باتیں بتائیں گئیں، لہٰذا میں نے اپنے عقل کے مطابق فیصلہ کیا۔‘‘ ڈاکٹر عباد نے اِس فیصلہ کن دن کو یادکرتے ہوئے کہا کہ، ’’میں بہت واضح تھا کہ آگے کا سفر مزید مشکل ہوگا لیکن جو بھی ہو میں قومی مفادات کو ترجیح دوں گا۔‘‘

یہ رپورٹ 4 جنوری کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی

مزید خبریں :