19 جنوری ، 2018
نڈر اور بے باک صحافی اور عزیز دوست طحہٰ صدیقی کو رواں ماہ 10 جنوری کو 10، 12 لوگوں نے ایئرپورٹ جاتے ہوئے راستے میں روکا، مارا پیٹا، گھسیٹا، دھمکایا، گاڑی میں بٹھایا اور لے کر جانے ہی والے تھےکہ موقع غنیمت جان کر میرا دوست بھاگ نکلا۔ وہ بے بسوں کی طرح لوگوں سے مدد مانگتا رہا، کئی لوگوں نے اسے لفٹ دینے سے انکار کر دیا، سب ہی ڈرتے ہیں مگر کچھ نہ کچھ کرکے وہ تھانے پہنچ گیا۔ اس کا فون، بٹوا اور پاسپورٹ وغیرہ تو چلا گیا مگر جان بچ گئی۔
میں لندن میں رہتا ہوں اور اُس رات طحہٰ کی وہاں آمد کا منتظر تھا، دو تین دن سے مسلسل ہم رابطے میں تھے، طحہٰ اور میرا ساتھ کوئی 10 یا 12 سال پرانا ہے۔ کراچی میں میری ملاقات طحہٰ سے اُس وقت ہوئی جب ہم دونوں جیو کے لیے کام کرتے تھے۔ میں اُس وقت سے طحہٰ کو سمجھا رہا ہوں کہ اس ملک میں لوگوں کو سچ سنانا ایک فن ہے جو تم کو نہیں آتا۔ وہ جو دیکھتا ہے وہ لکھ دیتا ہے، جو کہنا ہوتا ہے کہہ دیتا ہے اور جس سے کہنا ہو کہہ دیتا ہے، ایسا بھی کہیں ہوتا ہے؟ کم از کم پیارے وطن میں یہ ممکن نہیں!
10 سال پہلے ہم دونوں ہی احمق تھے، مگر میری اور طحہٰ کی حماقت میں صرف اضافہ ہوا ہے کمی نہیں ہوئی۔ اس 12 سال کے عرصے میں طحہٰ اور میں جب بھی ملے ہیں یا بات کی ہے ہم نے بحث ہی کی ہے لیکن گفتگو کبھی تہذیب کے دائرے سے باہر نہیں گئی، جب موقع ملتا ہم دونوں ایک دوسرے پر طنز اور طعنوں کے تیر چلاتے مگر طحہٰ صدیقی کے ماتھے پر کبھی بل نہیں آیا۔ وہ ہمیشہ منطقی جواب دیتا اور میرے جذبات سے بھرے جوابات پر خوب ہنستا اور مجھے یقین ہے آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا۔
اس دل دہلانے والے واقعے کے بعد میں نے طحہٰ کو کئی بار فون کیا ہے، بھابی سے ہماری بات ہوئی جو خود ایک خطرناک فوٹوگرافر اور فوٹو جرنلسٹ ہیں مگر طحہٰ خاموش تھا۔ اس نے نیا فون لے لیا، نیا فون مل جانے کے بعد بھی اُس نے اب تک میرے کسی میسج کا جواب نہیں دیا۔ میں بھی فی الحال خاموش ہوگیا ہوں، جب اُس کا دل چاہے گا، وہ بات کرلے گا۔
ہمارے ہاں جتنی خبریں ہوتی ہیں، اتنے ہی صحافی ہیں۔ کئی 'کچے توڑ لیے جانے والے صحافی' ایسے ہیں جو الہام اور اندازے کو 'خبر' سمجھ کر سب کو چیخ چیخ کر بتاتے ہیں۔ میں بتاتا ہوں کیا ہوا ہوگا، مجھے یاد ہے جیو نیوز کے سینئر صحافی حامد میر پر جب گولیاں برسائی گئیں تو عوام کی ایک قسم وہ بھی تھی جس نے کہا کہ یہ سب جیو نے خود کروایا ہے، کسی نے کہا حامد میر تو اسپتال میں تھے ہی نہیں، فیک (جعلی) نیوز، کسی نے کہا حامد میر نے اپنے پیٹ پر خود گولیاں مارلیں، غرض ہر تھیوری پر لوگوں نے تبصرہ کیا مگر لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ حامد میر پر حملہ اُن دشمنوں نے کیا تھا جو انہیں خاموش کروانا چاہتے تھے، جو اُن کی آواز کو دبانا چاہتے تھے، جو سچ کے خلاف تھے، لیکن اسٹوری میں مصالحہ کم تھا تو لوگوں نے خود بنالی۔
جیسے ہی طحہٰ صدیقی والی خبر ٹوئٹر تک پہنچی، کئی لوگ جنہوں نے جاسوسی ناول پڑھ رکھے ہیں، اس بات پر غور و فکر کرنے لگے کہ 10، 12 لوگوں سے یہ شخص بچ کر کیسے نکل گیا؟ انہوں نے پیچھے سے گولی کیوں نہیں مار دی؟ دن دیہاڑے ٹیکسی روک کر 3 یا 4 گاڑیاں؟ ایسے تھوڑی ہوتا ہے! اور مزے کی بات یہ ہے کہ ایک خاتون نے یہ سب منظر دیکھ کر ٹوئٹر پر لوگوں کو دلاسہ دینا چاہا، انہوں نے فرمایا کہ انہوں نے یونیورسٹی جاتے ہوئے خود طحہٰ کو روڈ پر بھاگتے ہوئے دیکھا مگر پھر انہی خاتون کو ٹوئٹر پر سب کو یقین دہانی کروانی پڑی کہ وہ طحہٰ کی پھوپھی کی بیٹی نہیں ہیں اور طحہٰ کے خاندان کو نہیں جانتی مگر ٹوئٹر پر موجود جاہل مطلق لوگ اس لڑکی کے پیچھے پڑگئے، یہاں بھی وہ اصول درست ثابت ہوا کہ جھوٹ کو اتنی بار اور اتنی زور سے بولو کہ سب یقین کرلیں۔
طحہٰ صرف ایک صحافی نہیں، وہ ایک بیٹا ہے، بھائی ہے، ایک معصوم بچے کا باپ ہے اور چاہنے والی بیوی کا شوہر ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ جب یہ سارا واقعہ پیش آرہا ہوگا تو طحہٰ کے ذہن میں کیا خیالات آرہے ہوں گے، وہ چند منٹ جب اسے لگ رہا تھا کہ ابھی پیچھے سے گولی چلنے والی ہے اُس وقت اپنے بچے، اپنے والدین، زوجہ، اپنے بھائی، اپنے دوستوں کے بارے میں سوچا ہوگا یا نہیں۔
میری ہمت نہیں ہے کہ میں اس سے پوچھ سکوں مگر میں طحہٰ کو جانتا ہوں، اس کی جان اس کے خاندان میں اٹکی ہوئی ہے، اس بار بھی لندن پہنچنے سے پہلے طحہٰ نے اپنے بیٹے کے لیے بہت ساری کتابیں آن لائن آرڈر کردی تھیں، جو میرے گھر طحہٰ کے لندن پہنچنے سے پہلے ڈیلیور ہوگئی تھی، صبح صبح میں وہ ڈبہ گاڑی میں ڈال کر دفتر جارہا تھا کہ واپسی پر سیدھا طحہٰ کے پاس جاؤں گا اور اسے یہ کتابیں دے دوں گا مگر وہ کتابیں میری گاڑی میں موجود ہیں، جب تک یہ معلوم نہیں تھا کہ کیا ہوا، کس نے کیا اور طحہٰ کیسا ہے، اُس وقت تک گاڑی میں رکھی کتابوں نے مجھ پر بہت ظلم کیا۔
پردیس میں رہنے کے کئی نقصانات میں سے ایک نقصان یہ ہے کہ وقت آنے پر آپ کسی کی مدد نہیں کرسکتے، آپ کسی کو گلے نہیں لگا سکتے، بھاگ کر تھانے نہیں پہنچ سکتے، اپنے دوست کو سہارا نہیں دے سکتے، ایسی صورتحال اکثر پیدا ہوجاتی ہے کہ آپ پردیس میں اپنے ملک میں ہونے والے کسی واقعے پر تڑپ کے رہ جاتے ہیں، طحہٰ کے ساتھ ہونے والا واقعہ بھی کچھ ایسا ہی تھا۔
پولیس تفتیش کرے گی اور انہیں پکڑے گی جنہوں نے یہ سب کچھ کرنے سے پہلے پولیس کے بارے میں سوچا بھی نہیں ہوگا، میں ہمیشہ طحہٰ کو سمجھاتا رہتا کہ آہستہ بولو یہ قوم سو رہی ہے صرف کبھی کبھی اٹھتی ہے، جب زینب قتل ہوجاتی ہے تو انگڑائی لیتی ہے، جب شاہ رخ جتوئی وکٹری کا نشان دکھاتا ہے تو چھینک مارتی ہے اور جب مشال خان کا باپ انصاف کی بھیک مانگتا ہے تو جمائیاں لیتی ہے، تمہاری سچائی سے بھری سخت باتیں سننے کا حوصلہ یہاں کسی میں نہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔