نقیب کے ساتھ قتل کیے گئے دیگر 3 افرادکا بھی کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہ مل سکا

پولیس مقابلے میں نقیب اللہ محسود کے ساتھ قتل ہونے والے دیگر تین افراد کا بھی کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہ مل سکا۔

نقیب اللہ جعلی مقابلہ کیس میں تحقیقات کے دوران نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں اور تحقیقاتی کمیٹی کے ذرائع کا بتانا ہے کہ نقیب اللہ محسود کے ساتھ قتل کیے جانے والے باقی 3 افراد نذر، صابر اور اسحاق کا بھی کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ملا۔

ذرائع کے مطابق نذر کو مئی 2017 میں سہراب گوٹھ کے قریب جنجال گوٹھ سے اٹھایا گیا ، صابر کو نومبر 2016میں ملتان سے اٹھایاگیا جب کہ صابر کی نشاندہی پر ہی اسحاق کو بہاولپور سے اٹھایا گیا تھا۔

اسحاق کے بھائی ذکریہ اور مزید 4 افراد کو بھی اٹھایا گیا لیکن انہیں بعد میں چھوڑ دیا گیا تھا۔

ذرائع کے مطابق نذر کا کوئی ریکارڈ کراچی پولیس یا سی ٹی ڈی کے پاس موجود نہیں ہے جب کہ ڈی پی او ملتان اور ڈی پی او بہالپور کے مطابق صابر اور اسحاق کا بھی کوئی کرمنل ریکارڈ موجود نہیں تاہم سی ٹی ڈی پنجاب سے بھی صابر اور اسحاق کا کرمنل ریکارڈ مانگا گیا ہے۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ نقیب اللہ جعلی مقابلہ کیس میں مزید ایک ایف آئی آر نذر کے اغوا کی ہوسکتی ہےجبکہ صابر اور اسحاق کی ایف آئی آرز کےلیے پنجاب پولیس سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ذرائع نے مزید بتایا کہ راؤانوار اور دیگر کی گرفتاری نہ ہونے کی صورت میں انہیں مفرورقرار دیا جائے گا، تمام پولیس اہلکاروں کو دفعہ 512 کے تحت چالان میں مفروردیا جائے گا۔

نقیب اللہ قتل کیس— کب کیا ہوا؟

13 جنوری کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔

بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔

پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔

تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی اس معاملے کا از خود نوٹس لے لیا۔

راؤ انوار کو ایس ایس پی ملیر کے عہدے سے معطل کردیا گیا ہے اور ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے بھی مارے جارہے ہیں البتہ اب تک ان کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔

مزید خبریں :