01 مارچ ، 2018
اسلام آباد: متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی سربراہی کے معاملے پر فاروق ستار نے الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار چیلنج کردیا۔
چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار محمد رضا ایم کیو ایم پاکستان کی کنوینرشپ کے معاملے پر دونوں گروہوں کی جانب سے دائر درخواستوں کی سماعت کر رہے ہیں۔
سماعت شروع ہوئی تو فاروق ستار کے وکیل بابر ستار نے ایک نئی درخواست جمع کرائی جس میں الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کو چیلنج کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ کنوینرشپ کے معاملے پر بہادرآباد اور پی آئی بی دونوں گروہوں کی جانب سے الیکشن کمیشن سے رجوع کیا گیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے فاروق ستار کے وکیل کو دلائل شروع کرنے کا کہا تو وکیل بابر ستار نے کہا کہ پہلے الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار کا تعین ہو جائے پھر جواب پر دلائل دیں گے۔
اس موقع پر ایم کیو ایم بہادر آباد گروپ کے وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا دائرہ اختیار ہے، دلائل دے سکتا ہوں جس پر فاروق ستار کے وکیل نے کہا کہ انٹرا پارٹی تنازعہ اور اندرونی معاملات میں الیکشن کمیشن مداخلت نہیں کرسکتا۔
یاد رہے کہ 27 فروری کو سماعت کے دوران بہادر آباد گروپ کے وکیل کی جانب سے استدعا کی گئی تھی کہ 3 مارچ کو سینیٹ انتخابات ہونا ہیں اس لیے کیس جلد نمٹایا جائے جس پر وکیل بابر ستار نے جواب داخل کرنے کے لئے وقت مانگا تھا، وقت مانگنے پر الیکشن کمیشن نے فاروق ستار سے آج جواب طلب کیا تھا۔
فاروق ستار کی درخواست
فاروق ستار کی جانب سے آج جمع کرائی جانے والی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پارٹی کے اندرونی معاملے کو الیکشن کمیشن نہیں سن سکتا جب کہ سپریم کورٹ بھی الیکشن کمیشن کے اختیار سے متعلق فیصلہ دے چکی ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ دونوں درخواستیں پارٹی کے اندرونی تنازع سے متعلق ہیں، یہ معاملہ پارٹی آئین کے مطابق حل ہونا ہے، آئین کے آرٹیکل 218 اور 220 میں الیکشن کمیشن کے اختیارات واضح ہیں۔
درخواست میں اپیل کی گئی ہے کہ ہماری استدعا منظور کر کے کنور نوید جمیل کی درخواست مسترد کی جائے۔
فاروق ستار کی میڈیا سے گفتگو
الیکشن کمیشن آمد کے موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے فاروق ستار کا کہنا تھا کہ ایم کیوایم کارکنان اور عوام کی ہے، وہی اس کی حفاظت کریں گے، قانون کے مطابق الیکشن کمیشن پارٹی لیڈر کا تعین کرہی نہیں سکتا، الیکشن کمیشن سے خلاف فیصلہ آیا تو ساتھیوں سے مشورہ کریں گے۔
فاروق ستار نے کہا کہ الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی الیکشن کو ہی تسلیم کرتا ہے، انٹرا پارٹی الیکشن سے ہی لیڈر کا چناؤ ہوتا ہے جس کے سوا کوئی طریقہ نہیں، الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی الیکشن کو روکا نہیں تھا۔
پی آئی بی گروپ کے سربراہ نے کہا کہ خالد مقبول کے پاس پرانی تحلیل شدہ رابطہ کمیٹی کے 23 سے 24 رکن ہیں تاہم میرے پاس 35 رکنی رابطہ کمیٹی ہے، یہ حقیقی ٹو بنانے کی تیاری ہے،یہ اللہ جانتا یے اس کے پیچھے کون ہے، مجھے یقین ہے الیکشن کمیشن پارٹی آئین کے مطابق فیصلہ کرے گا۔
ایم کیو ایم پاکستان میں تنازع کی وجہ اور گروہ بندی
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار کی جانب سے سینیٹ کے لئے کامران ٹیسوری کا نام بطور امیدوار سامنے لانے پر پارٹی میں اختلافات شروع ہوئے۔
5 فروری کو رات گئے رابطہ کمیٹی نے اجلاس بلاکر کامران ٹیسوری کی رکنیت معطل کی جس کے اگلے ہی روز فاروق ستار نے اجلاس کو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے اجلاس بلانے والے ارکان کی رکنیت کچھ دیر کے لئے معطل کی۔
کامران ٹیسور کے نام سے شروع ہونے والا تنازع قیادت تک جاپہنچا، رابطہ کمیٹی نے فاروق ستار کو قیادت سے ہٹایا جس پر فاروق ستار نے 18 فروری کو انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد کیا جس میں وہ پارٹی سربراہ اور 35 رکنی رابطہ کمیٹی کا انتخاب عمل میں لایا گیا۔
دوسری جانب خالد مقبول صدیقی کی قیادت میں بہادر آباد گروپ نے پارٹی سربراہی کو الیکشن کمیشن میں چیلنج کیا جب کہ اس حوالے سے فاروق ستار کی جانب سے بھی درخواست جمع کرائی گئی۔