کچرہ کچرہ کراچی ...

شہر میں جس جگہ چلے جاؤ، وہاں کچرہ منہ چڑا رہا ہوتا ہے—۔فائل فوٹو

کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے جب میرے بھتیجے نے سوال کیا، 'پھپھو کراچی کی کون سی چیز مشہور ہے؟' اور میرے منہ سے بے اختیار نکلا 'کچرہ'۔

اس جواب پر اُس نے اتنی حیرت سے مجھے دیکھا، جسے اُسے لگ رہا ہو کہ میں مذاق کر رہی ہوں، لیکن آپ ہی بتائیں، کیا یہ مذاق ہے؟

کیا واقعی 'کراچی کا کچرہ' مشہور نہیں ہے؟ 

جس جگہ چلے جاؤ، وہاں کچرہ منہ چڑا رہا ہوتا ہے، جس اخبار کو اٹھا لو وہاں کراچی کے کچرے کی خبر لگی ہوتی ہے، کوئی بھی نیوز چینل لگا لو وہاں کراچی کے کچرے کا رونا رویا جارہا ہوتا ہے۔

ہمارا پیارا شہر کراچی کب کچرہ کچرہ ہوا، حتمی طور پر تو کوئی تاریخ بتانا مشکل ہے، ہاں لیکن اتنا ضرور یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ کراچی کے شہری اس اذیت میں کوئی دو چار ہفتوں یا مہینوں سے نہیں بلکہ سالوں سے دوچار ہیں۔

پہلے پہل یہ مسئلہ تھا کہ ملک میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہو رہے اور عوامی نمائندگی نہیں اور جب خیر سے 2015 میں عوامی نمائندے منتخب ہوگئے اور ایم کیو ایم کے وسیم اختر نے شہر قائد کے میئر کی ذمہ داریاں سنبھال لیں تو پھر یہ رولا ڈل گیا کہ کراچی کا کچرہ صاف کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟

ہمارے محترم چیف جسٹس صاحب بہت عوامی مزاج کے حامل ہیں اور مرحوم ادیب اشفاق احمد کی طرح لوگوں میں آسانیاں تقسیم کرنے کے قائل ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ کراچی شہر میں گندگی اور 'کچرے کے ماؤنٹ ایورسٹوں' کا انہوں نے ازخود نوٹس لیا اور میئر کراچی وسیم اختر سمیت سندھ کی صوبائی حکومت کو بھی عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا۔

میئر صاحب تو کب کے بھرے بیٹھے تھے، انہوں نے جھٹ ساری کہانی چیف جسٹس کے گوش گزار کردی کہ میں تو کام کرنا چاہتا ہوں لیکن اختیارات نام کی چڑیا سندھ حکومت کے قبضے میں ہے۔

عدالت عظمیٰ میں کھڑے ہوکر چیف سیکریٹری سندھ نے بھی یہ اعتراف کیا کہ کچرے کی صفائی کی ذمہ داری پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ یہ وہی پارٹی ہے جس کا قائد اب بھی زندہ ہے لیکن اس کے رہنماؤں میں ضمیر نامی چیز مرچکی ہے۔

خیر چیف جسٹس صاحب نے کراچی میں کچرے، گندگی اور صفائی کی ناقص صورتحال پر انتہائی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایک ہفتے میں شہر کی صفائی کا حکم دیا، اس بات کو آج پورا ایک ہفتہ گزر چکا ہے، لیکن کراچی کا کچرہ ہنوز اپنی جگہ پر موجود ہے۔

وہ تو بھلا ہو نجم سیٹھی کا، جنہوں نے پاکستان سپر لیگ تھری کا فائنل کراچی میں کروانے کا اعلان کیا اور اس ایونٹ کی مہربانی سے شہر کی قسمت بھی جاگ گئی یا یوں کہہ لیں کہ کچھ علاقے شیشے کی طرح چمک گئے۔

25 مارچ کو کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ایونٹ کے فائنل میچ کے لیے گلشن اقبال، شارع فیصل اور اسٹیڈیم  کی طرف آنے جانے والے روٹس کو گندگی اور کچرے سے صاف کردیا گیا اور سڑکوں اور عمارتوں کو دلہن کی طرح سجا دیا گیا۔

کراچی کے شہری بھی سڑکوں کا یہ بدلا بدلا روپ دیکھ کر خوب حیران ہوئے، فیس بک پر ایک سہیلی کا اسٹیٹس دیکھا، جس نے گلشن اقبال کی صاف ستھری سڑکوں پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے انتہائی معصومانہ فرمائش کر ڈالی کہ 'ہر مہینے ہی شہر میں کوئی میچ کرا دیا جائے'۔

اس سادگی پہ کون نہ مرجائے  اے خدا!

لیکن یہ سوال اب بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ کراچی کا کچرہ صاف کرنا واقعی کسی کی ذمہ داری ہے؟ اور ملک کے سب سے بڑے شہر، معاشی حب اور سب سے زیادہ ریونیو دینے والے اس شہر کو کچرے سے کب اور کس طرح نجات ملے گی؟

 اس حوالے سے ہم نے سوشل میڈیا پر ایک عوامی سروے کیا، جس کے اعدادوشمار کے مطابق تقریباً 65 فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ کراچی کا کچرہ صاف کرنا سندھ حکومت کا کام ہے جبکہ صرف 35 فیصد لوگوں نے اسے بلدیاتی حکومت کی ذمہ داری قرار دیا۔


اس سروے کے ساتھ لوگوں کے نہایت دلچسپ تبصرے بھی سامنے آئے۔

کسی نے کہا، 'یہ کچرا فوج کو ہی اٹھانا پڑے گا کیونکہ جمہوریت کے چیمپیئن تو صرف ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالتے رہیں گے'۔

جبکہ کسی نے کہا کہ 'شہر میں رینجرز کا ہولڈ ہے، لہذا اس وقت کراچی ہر لحاظ سے ان کی ذمہ داری ہے، وہی اس مسئلے کو حل کرائیں'۔

دوسری جانب کچھ لوگوں نے اسے بلدیاتی حکومت کی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'سندھ حکومت فنڈ دے گی تو تب ہی بلدیاتی حکومت کام کرے گی'۔

شہر کا موجودہ کچرا صاف کرنے کی ذمہ داری کسی کی بھی ہو، لیکن ایک ٹیکس دینے والے شہری کی حیثیت سے یہ ہمارا حق ہے کہ ہم ایک صاف ستھرے، کچرے اور گندگی سے پاک شہر میں سانس لیں، یہ ہمارا بنیادی حق ہے۔

لیکن اپنے اس 'حق' کا مطالبہ کرنے سے پہلے اگر ہم میں سے ہر ایک اپنے گریبان میں بھی جھانک لے تو شاید بیشتر لوگوں کے سر شرم سے جھک جائیں گے، کیونکہ شہر میں یہ کچرہ پھیلانے والے بھی ہم ہی ہیں۔

اگر ہم اپنے گھروں کا کچرہ سامنے والی سڑک پر یا جوس اور چپس کے خالی پیکٹ گاڑیوں سے باہر نہ پھینکیں اور اس کچرے کو اس کی اصل جگہ یعنی کچرہ کنڈی یا کوڑے دان میں ڈالیں تو کیا جابجا بکھرا یہ کچرہ نظر آسکتا ہے؟

یہاں تو حال یہ ہے کہ اگر راہ چلتے کسی کو کہا جائے کہ پلیز چپس کا خالی پیکٹ راستے میں پھینکنے کے بجائے اپنے بیگ میں رکھ لیں اور گھر جاکر یا کسی کوڑے دان میں ڈال دیں تو جواب ملتا ہے کہ بھئی کون سی دنیا میں رہتی ہو؟ یہاں وہاں بھی تو اتنا کچرہ پڑا ہوا ہے، اس ایک چپس کے خالی پیکٹ سے کون سا طوفان آجائے گا؟

واقعی اس وقت تو کوئی طوفان نہیں آتا لیکن چند ہفتوں، مہینوں بعد یہی چپس کے خالی پیکٹ جمع ہو ہو کر 'کچرے کا طوفان' اٹھا دیتے ہیں، جس کا شکوہ پھر ہم سب ہی کرتے نظر آتے ہیں۔

اور کچرہ تو ایک طرف، ہم تو وہ قوم ہیں جس نے گٹکے اور پان کی پچکاریوں سے بھی شہر کی ہر سڑک، ہر دیوار پر نقش ونگار بنا رکھے ہیں اور اس پر ہمیں کوئی شرمندگی بھی نہیں۔

اللہ کرے کہ چیف جسٹس کی 'ڈیڈلائن' کے ڈر سے ہی سہی، لیکن کراچی کو کچرے سے نجات مل جائے اور بلدیاتی یا سندھ حکومت اپنی ذمہ داری کا ادراک کرتے ہوئے چند علاقوں کے بجائے پورے شہر کا کچرہ صاف کردے، لیکن اگر واقعی ہمیں مستقبل میں بھی اپنا شہر صاف ستھرا چاہیے تو ہمیں انفردی طور پر خود سے بھی یہ عہد کرنا ہوگا کہ آئندہ کچرہ سڑکوں پر نہیں پھینکیں گے بلکہ اسے اس کے اصل ٹھکانے یعنی کوڑے دان میں پہنچائیں گے۔


مزید خبریں :