09 اپریل ، 2018
فلم کیک کے ’دی اینڈ‘ کے بھی بعد اچانک آمنہ شیخ بڑی اسکرین پر نمودار ہو کر موٹر بائیک پر گولا گنڈا کھاتے ہوئے ایک اشارہ کرتی ہیں اور یہ اشارہ ہوتا ہے ان لوگوں کیلئے جو دوسروں کے کام پر نظر رکھتے ہیں اور کیڑے نکالتے ہیں۔
اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ فلم ’کیک‘ کے ریویوز صرف اسی وجہ سے ہی اتنے اچھے آرہے ہیں توآپ کا اندازہ بالکل بھی درست نہیں۔
فلم کیک میں کتنا میٹھا ہے؟ فلم کا نام ’کیک‘ کیوں رکھا؟ کیک اور کپور اینڈ سنز میں کتنی مماثلت ہے؟ کیا کیک اب تک پاکستان کی سب سے اچھی فلم ہے؟کیا کیک پوری فیملی کیلئے فلم ہے؟کیا کیک دیکھنی چاہیے؟ کیک میں کیا کڑواہٹ کی بھی جگہ ہے؟آمنہ یاصنم سعید اور ابا یا اماں؟ کیک میں چھپا کر کیا پیش کیا گیا؟ کیک کا سب سے اچھا سین کونسا ہے ؟ آئیے مل کر ان سوالات کے جوابات ڈھونڈتے ہیں۔
’کیک‘ کہانی ہے رشتوں کی جن میں تہہ در تہہ کڑواہٹ بھی ہے مٹھاس بھی، قربانی بھی ہے اور خودغرضی بھی، بچپن ہے بڑھاپا بھی، وفا بھی ہے بے وفائی بھی، حادثہ ہے اور سزا بھی، یادیں ہیں اور مستقبل بھی، جوانی ہے اور شادی بھی، رومیو ہے اور جولیٹ بھی، بولڈ ہے اور بیوٹی فل بھی، ڈرامہ ہے اور مسٹری بھی ،گرفت ہے تو کمزوریاں بھی ، ہیپی نیو ایئر ہے اور بہت ساری سالگرہ بھی، ایک پیار کا نغمہ ہے اورساتھ میں پیا اب تو آجا بھی۔
شاید اسی لیے فلم کا نام ’کیک‘ رکھا گیا ہے کیونکہ کیک رشتوں کی طرح خوبصورت لیکن نازک بھی ہوتا ہے اور اپنے اندر بہت چیزیں چھپا کر رکھتا ہے وہ جو باہر سے دکھائی نہیں دے سکتیں۔
فلم دیکھنے کے بعد سب سے پہلے یہ طے ہوجاتا ہے کہ ’کیک‘ اور ’کپور اینڈسنز‘ دونوں فلموں میں شاید 10 فیصد بھی مماثلت نہیں لیکن یہ بات بھی صحیح ہے کہ دونوں فلموں کا موازنہ بنتا تھا کیونکہ فلم ’کیک‘ کا 90 فیصد ٹریلر یہ بتاتا تھا کہ فلم کپور اینڈ سنز کی طرح کی ہوگی۔
کیک کی کہانی میں ٹوئسٹ اینڈ ٹرن ہیں اس لیے کہانی کو بہت سنبھل سنبھل کر بیان کرنا ہوگا۔ فلم کی کہانی سندھ کے سب سے بڑے شہر کراچی کی ایک فیملی کی ہے جن کا تعلق زمیندار گھرانے سے ہوتا ہے اور ان کی سندھ کے دوسرے شہروں میں زمینیں بھی ہیں۔ اس خاندان میں بیمار باپ اور ماں بلکہ پورے گھر اور زمینوں کا خیال ان کی منجھلی بیٹی رکھتی ہے۔
’کیک‘ جہاں جہاں ڈرامہ رہتی ہے وہ آپ کے دل کے قریب رہتی ہیں جہاں اس کہانی کو فلم بنایا جاتا ہے وہاں تھوڑی دور ہوجاتی ہے۔
اس بیٹی سے بڑا بھائی شادی کرکے امریکا کو پیارا ہوگیا اور چھوٹی بہن نے اپنا گھر برطانیہ میں بسالیا ہے۔ بڑی بیٹی کا کردار آمنہ شیخ اور چھوٹی کا صنم سعید نے ادا کیا ہے، بیمار باپ کا کردار محمد احمد اور شریر ماں کا رول بیو ظفر نے ادا کیا ہے۔
ابا کی طبیعت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے انھیں اسپتال داخل ہونا پڑتا ہے جس کے بعد صنم فوراً کراچی آجاتی ہے اور بعد میں بیٹے فارس کو بھی اپنی بیوی اور بیٹے کے ساتھ وطن آنا پڑتا ہے۔ محمد احمد کا خیال رکھنے کیلئے جس ’میل نرس‘ کو رکھا جاتا ہے وہ نہ صرف اس خاندان کے ساتھ بچپن گزار چکا ہوتا ہے بلکہ اب اس کا آمنہ سے محبت کا رشتہ بھی ہوتا ہے۔
جب یہ خاندان اکھٹا ہوتا ہے تو ہر خاندان کی طرح پرانی کڑوی باتیں نکلتی ہیں اور کچھ ایسے گڑے مردے نکل کر سامنے آجاتے ہیں جنھیں بڑے چھوٹوں سے چھپا کر دفن کر کے سالوں سے بھولنے کی کوشش کرتے ہیں، اب اس سے زیادہ کہانی بتانے کی صورت میں آپ نے اگر فلم نہیں دیکھی تو آپ کا مزا زیادہ اور فلم کا بزنس تھوڑا خراب ہونے کا امکان ہے۔
کچھ لکھنے والوں نے اسے مکمل پاکستانی ثقافت کی عکاسی بھی کہہ دیا حالانکہ یہ تو کسی شہری علاقے کے کسی گھر کی بھی مکمل عکاسی نہیں کرتی ہوگی لیکن یہ بات بھی ہے کہ ہر فلم دیکھنے والا کسی ایک کردار کو یقینا اپنے گھر میں اپنے ساتھ روز دیکھتا ہوگا یا وہ خود کسی کردار کی طرح کا ہوگا
’کیک‘ جہاں جہاں ڈرامہ رہتی ہے وہ آپ کے دل کے قریب رہتی ہیں جہاں اس کہانی کو فلم بنایا جاتا ہے وہاں تھوڑی دور ہوجاتی ہے۔ ’کیک‘ کا شمار اچھی فلموں میں کیا جاسکتا ہے لیکن یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس سے اچھی پاکستان میں کوئی فلم ہی نہیں بنی۔ حالیہ برسوں میں اگر شعیب منصور صاحب کی فلموں کو ہٹا کر فہرست بنائی جائے تو بھی مکمل فلموں میں سب سے اوپر ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘، اسمارٹ فلموں اور نئے سینما میں ’ایکٹر اِن لاء‘ اور کامیڈی میں ’رانگ نمبر‘ کا نمبر آتا ہے۔
کچھ لکھنے والوں نے اسے مکمل پاکستانی ثقافت کی عکاسی بھی کہہ دیا حالانکہ یہ تو کسی شہری علاقے کے کسی گھر کی بھی مکمل عکاسی نہیں کرتی ہوگی لیکن یہ بات بھی ہے کہ ہر فلم دیکھنے والا کسی ایک کردار کو یقینا اپنے گھر میں اپنے ساتھ روز دیکھتا ہوگا یا وہ خود کسی کردار کی طرح کا ہوگا۔
میاں کو ڈانٹنے والی لیکن اس کا خیال رکھنے والی گانا گانے والی بیگم، بیوی سے ڈرنے والا لیکن اس سے محبت کرنے والا شوہر، سارے کام خود سر پر لے کر شور مچانے والی بہن، اپنی بہن کا کام کرتا دیکھ کر بار بار مدد کرنے کا پوچھنے والی لیکن دور سے دیکھنے والی بہن۔ بھابھی کی ہر ادا کو نخرہ کہنے والی نندیں اور بھائی کو بیوی سے ڈرنے کا طعنہ دینے والی بہنیں، شوہر کو ماں باپ کے کیلئے ٹائم دینے پر بیگم کی ناراضی،بیٹی کیلئے جہیز کا سامان سب کچھ تو ہے اس فلم میں۔
فلم میں بڑے گھر پر پہلے پرانا ٹی وی پھر پرانا ٹیپ ریکارڈر پھر پرانی وی ایچ ایس کیسٹس دیکھ کر حیرانگی ہوتی ہے لیکن پرانی گاڑی میں سفر کرنے والے ابا کی ضد سب کچھ کلیئر کردیتی ہے۔ ایسا سب کے گھروں میں ہوتا ہے کہ بڑے اپنی پرانی چیزوں سے بہت پیار کرتے ہیں اور انھیں آخر تک استعمال کرتے ہیں۔
بیو ظفر اور محمد احمد نے بھی بہت اچھی اداکاری کی لیکن اب کچھ لکھنے والوں نے محمد احمد صاحب کی ایکٹنگ کو ’بگ بی‘ کے برابر اور فلم کو ’کپور اینڈ سنز‘ اور ’پیکو‘ سے بھی اچھا قرار دے دیا۔
فلم میں گاڑی کا ٹائر بدلتے ہوئے کراچی کی مخصوص وال چاکنگ کو بھی دکھایا گیا ہے اور لمبے سفر میں باتھ روم کی ضرورت کو بھی، اسی طرح سگریٹ چھپ کر پینے اور ثبوت مٹانے والی سب سے فیورٹ جگہ بھی۔
فلم میں ایکٹنگ کی بات ہو تو ہمارے خیال میں کردار بڑا آمنہ شیخ کا ہے لیکن شیڈز زیادہ صنم کے کردار میں ہیں دونوں نے اداکاری بہت اچھی کی لیکن اگر دونوں میں سے ایک کو چُننا ہو توں ہمارا انتخاب صنم سعید ہوگا۔
اسپتال میں بہن کے کاندھے پر سر رکھ کر سونا ہو یا اماں اور ابا سے محبت کا اظہار، بھائی اور بھابی پر جملے کَسنا ہوں یا پھر بڑی بہن پر غصے کا اظہار، حقیقت سامنے آنا ہو یا پھر پرانی محبت سے ملاقات اور آخر میں ڈاکٹر اور سب گھر والوں پر برسنا سب میں صنم سعید نے بہت اچھی ایکٹنگ کی، آمنہ کا کردار فلم کا مرکزی کردار ہے لیکن انھوں نے بھی بہت اچھی ایکٹنگ کی تاہم ان کا کردار بڑا اوررنگ کچھ کم تھے۔
بیو ظفر اور محمد احمد نے بھی بہت اچھی اداکاری کی لیکن اب کچھ لکھنے والوں نے محمد احمد صاحب کی ایکٹنگ کو ’بگ بی‘ کے برابر اور فلم کو ’کپور اینڈ سنز‘ اور ’پیکو‘ سے بھی اچھا قرار دے دیا۔ بے شک سب کو اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے اور سب کی رائے اور زاویہ محترم ہے لیکن اسی حق کا استعمال کرتے ہوئے یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ہمارے خیال میں اس طرح کی تعریف کام کرنے والے کو اچھی تو لگتی ہے لیکن شایہ ایسا موازنہ ہماری فلم انڈسٹری کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ کا کام کرے گا لیکن یہ حقیقت ہے کہ ’ٹِک ٹاک‘ اور ’مان جاؤ نا‘ جیسی پاکستانی فلموں کے سامنے تو ’کیک‘ ’ٹائی ٹینک‘ ہے۔
ڈائریکٹر عاصم عباسی کی ڈائریکشن بہت اچھی ہے اور اگر انہوں نے مستقبل میں میں کوئی ہارر یا سسپنس مرڈر مسٹری بنائی تو ٹیکنیکل بنیادوں پروہ بھی بہت اچھی فلم ہوگی
بیو ظفر نے بہت بے ساختہ اداکاری کی ہے، انہوں نے ہر منظر اور مکالمے میں جان ڈال دی فلم میں یہی وہ کردار ہے جس کی وجہ سے فلم بین خوب اینٹر ٹین ہوتے ہیں اور ان کی سیلفیوں، وگ، گانوں، ڈانس، مکالموں حتی کہ گالیوں پر بھی تالیاں اور سیٹیاں بجاتے ہیں۔
اب کوئی اسے ٹوائلٹ ہیومر کہے یا کچھ اور اس فلم میں سب سے زیادہ مقبول سین وہ ہے جہاں اماں ،ابا اور بیٹیاں چاروں مل کر تاش کھیلتے ہیں اور اماں اپنے شوہر کے پیچھے پڑ جاتی ہیں اور آمنہ اور صنم کے ساتھ پورا سینما ہال قہقہے لگا رہا ہوتا ہے۔
یہ منظر انتہائی سادہ ہے اور اس میں کوئی ہائی پروڈکشن ویلیوز بھی نہیں لیکن اپنے ”کونٹینٹ“ اور” اداکاری“ سادگی اور مکالموں کی وجہ سے یہ فلم کا سب سے مقبول سین ہے۔
فلم کے کلائمکس کی ہر جگہ تعریف ہورہی ہے کیونکہ وہ تقریبا دس منٹ کا سین ایک ٹیک میں ’اسٹیڈی کیم‘ پر شوٹ ہوا ہے۔ اس سین میں سب سے بڑا ہاتھ ڈائریکٹر اور ڈی او پی کا تو ہے ہی لیکن اداکاروں کا بھی اتنا ہی کمال ہے، ویسے اس سین میں نظر آنے والے زیادہ تر اداکاروں نے تھیٹر پر کافی عرصے کام کیا ہے تو ان کیلئے یہ سین زیادہ مشکل نہیں ہوا ہوگا۔
لیکن فلم میں اس کلائمکس سے بھی زیادہ اچھے سین لکھنے والوں کی آنکھ اور کان میں شاید جمے نہیں ہوں لیکن ٹیکنیکل پروفیشنلز نے ان مناظر کو خوب نوٹس کیا ہوگا۔
ان میں سے پہلا سین ٹائٹل شروع ہونے کے بعد ہے جب رومیو اور جولیٹ ای میل پر باتیں کر رہے ہوتے ہیں اور ابا کی طبیعت خرابی کا فون آتا ہے، اس کے بعد گھر کے گھڑیال کا گھنٹا اور لندن کے بگ بین کا گھنٹہ بجتا ہے اور پھر پرندوں کی آواز، بیک گراؤنڈ میوزک اورایڈیٹنگ، صنم کا آنا، ایمبولینس کا جانا اس فلم کا اگر کوئی ٹیکنیکل اور پروڈکشن بنیادوں پر سب سے اچھا سین تھا تو ہمارے خیال میں یہ والا تھا۔
دوسرا بہترین منظر تاش کے سین کے بعد والا ہے، اس سین میں بھی گھڑیال کا گھنٹا ہے، بیک گراؤنڈ میوزک اور ایمبولنس ہے لیکن اس بار خوف اور ڈر لوگ زیادہ محسوس کرتے ہیں اور اس سین کے بعد گھر کا بیٹا بھی واپس آجاتا ہے، ویسے گھڑیال کے گھنٹوں کی آوازوں کا فلم میں بہت اچھا ستعمال کیا گیا ہے۔
فلم میں کئی بولڈ فیصلے ہیں جن میں سے کچھ کو مکمل چھپا کر، کچھ کو کھل کر اور کچھ کو شوگر کوٹڈ کر کے پیش کیا گیا ہے اور یہ فلم پیش کرنے والوں اور بنانے والوں کا حق ہے
ڈائریکٹر عاصم عباسی کی ڈائریکشن بہت اچھی ہے اور اگر انہوں نے مستقبل میں میں کوئی ہارر یا سسپنس مرڈر مسٹری بنائی تو ٹیکنیکل بنیادوں پروہ بھی بہت اچھی فلم ہوگی۔
انہوں نے اداکاروں سے کام بھی بہت اچھا لیا ہے اورکاسٹنگ بھی بہت موزوں ہے، سنیماٹوگرافی کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی لیکن پوری فلم میں اتنی اچھی سینماٹو گرافی پر آمنہ شیخ اور صنم سعید دونوں کا ایک ایک کلوز اپ اچھا نہیں لگا جب آمنہ رومیو سے اور صنم شہریار سے مختلف مناظر میں بات کرتی ہیں تو وہ الگ سے نظر آتا ہے۔
فلم میں کئی بولڈ فیصلے ہیں جن میں سے کچھ کو مکمل چھپا کر، کچھ کو کھل کر اور کچھ کو شوگر کوٹڈ کر کے پیش کیا گیا ہے اور یہ فلم پیش کرنے والوں اور بنانے والوں کا حق ہے۔
فلم میں کوئی آئٹم سانگ نہیں لیکن 1971ک ی بالی وڈ کی فلم ’کاررواں‘ کے آئٹم سانگ ٹائپ اور بے باک گانے ’پیا تو اب تو آجا‘ کو ’یادوں کی بارات‘ کی طرح کے گانے کے طور لیا گیا ہے، یہ گانا اماں کا فیورٹ ہوتا ہے، ہو بھی سکتا ہے ہے لیکن کئی مواقع خصوصاً اینڈ میں بالکل صحیح نہیں لگتا کیونکہ یہ فلم سے جڑنے والوں کے جذبات سے اُلٹ جارہاہوتا ہے۔ اگر اُس وقت کی گھڑی میں ڈائریکٹر کو لوگوں کو ہنسانا مقصود تھا پھر وہ اس میں کامیاب رہے ہیں۔
ایک سینئر ناقد اور جرنلسٹ نے بالکل درست لکھا ہے کہ اس موقع پر دیکھنے والے بھی گھر والوں کی دعاؤں کے منتظر ہوتے ہیں، اس گانے کا پہلے استعمال کردار کے ساتھ تھا اور موزوں تھا، اسی طرح بہاروں پھول برساؤ اور ایک پیار کا نغمہ کا بھی بہت اچھا استعمال کیا گیا۔
فلم میں گاؤں جاتے ہوئے ایک سندھی زبان کا گیت سنائی دیتا ہے وہ فلم دیکھنے والے کو جکڑ لیتا ہے یہ گیت بہت موزوں استعمال کیا گیا ہے، اس گانے کا استعمال آگے بھی کیا جاسکتا تھا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جس گھر میں ٹیپ ریکارڈر تھا یا ہے اس گھر میں 90 فیصد بالی وڈ کے گانے ہی بجتے تھے۔
دوسری طرف واٹس ایپ اور دوسری ایپس اور میسنجرز کے اِس دور میں ایک دوسرے سے ای میل پر رابطہ کرنا بھی کافی ’آؤٹ ڈیٹڈ‘ لگتا ہے۔
فلم کے اینڈ میں کچھ علامتی مناظر بھی ہیں جو ڈائریکٹر کی سوچ اور پیغام بھی ہوسکتے ہیں یا شاید مقامی روایت یا رسمیں، فلم رومیو اور جولیٹ کے رشتے کے حوالے سے بھی کافی بولڈ کہی جاسکتی ہے ۔
فلم کی پروموشن بہت زیادہ ہوئی ہے فلم کا ایک پریمیئر لندن میں بھی ہوا کیونکہ فلم کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر پاکستانی نژاد برطانوی یا پھر برطانیہ میں ہی رہتے ہیں۔ فلم کی مکمل کاسٹ نے فلم کی شوٹنگ سے بھی زیادہ ٹائم فلم کی پروموشن کو دیا اور اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی، سوشل میڈیا اور ٹی وی چینلز پر بھی فلم کے ٹریلرز اور انٹرویوز چلے اور چل رہے ہیں۔
فلم میں کئی گالیاں بھی ہیں جن سے کچھ ’فلیور‘تو کچھ ”زبردستی“ کی لگتی ہیں، فلم میں نندوں کی بھابی سے ’توتو میں میں‘ اور بھائی سے نوک جھونک دکھائی گئی
فلم کا بیک گراؤنڈ میوزک، آرٹ ورک اور پروڈکشن ڈیزائن فرسٹ کلاس ہیں لیکن بیک گراؤنڈ میوزک اور ساؤنڈ ان میں بھی سب سے آگے ہیں باقی ڈائریکشن، سینماٹو گرافی، پروڈکشن اور اداکاری کی تعریف تو پہلے ہی کی جاچکی ہے، فلم کے مکالمے بھی آسان اور زندگی سے بھرپور ہیں۔
فلم میں عدنان ملک، میکال ذوالفقار اور فارس تینوں نے اپنے اپنے کردار اچھی طرح نبھائے لیکن فلم بیو ظفر، صنم، آمنہ اور محمد احمد کی کردار نگاری کی وجہ سے یاد رکھی جائے گی۔
فلم کا ایک نسبتاََ کمزور پہلو اس حقیقت کا سامنے آنا تھا جس سے سب ڈر رہے ہوتے ہیں، عاصم عباسی نے اپنی تحریر اور ڈائریکشن سے جس طرح اس مسٹری کو ”بِلڈ“ کیا، اس بنیا د کے اوپر ایک عمارت بنائی وہ قابل تعریف ہے لیکن جب وہ تلخ حقیقت سب کے سامنے آتی ہے تو اس طرح کا ”جھٹکا“ نہیں لگتا جو لگنا چاہیے تھا کیونکہ فلم دیکھنے والے پتا نہیں کیا کیا امید کر رہے ہوتے ہیں لیکن وہ حقیقت اتنی تلخ یا خطرناک نہیں لگتی۔
صنم اپنی مرضی سے باہر نہیں جاتی تو یہاں بھی آمنہ کا صنم پر غصہ بلا وجہ دکھایاگیا ہے۔ فلم میں کئی گالیاں بھی ہیں جن سے کچھ ’فلیور‘تو کچھ ”زبردستی“ کی لگتی ہیں۔ فلم میں نندوں کی بھابی سے ’توتو میں میں‘ اور بھائی سے نوک جھونک دکھائی گئی لیکن صنم کے شوہر یعنی دلہا بھائی کیلئے سالے صاحب یا آدھے گھر والی کی طرف سے کوئی جملہ نہیں دکھایا گیا۔ فلم میں آخری بیس سے پچیس منٹ بہت ”سِلو“ ہیں اور فلم کے ”پیس “ کو اور آہستہ کرتے ہیں۔
فلم کتنی اچھی ہو یا بری اس کا نتیجہ باکس آفس نمبرز پر آتا ہے۔ اب تک اس ذرا ہٹ کہ فلم نے’یوکے باکس آفس‘ پر ’پنجاب نہیں جاؤں گی‘ اور ’ورنہ‘ سے کم بزنس کیا ہے لیکن اس کی وجہ اُن فلموں کی اسٹار پاور ہوسکتی ہے۔ جتنی تعریف اس فلم کی گئی ہے اس حساب سے اسے کم سے کم صرف اس سال کی ”’للہ یار‘ جتنا لمبا چلنا اور ”پرچی “ جتنا بزنس تو کرنا ہوگا۔
ورنہ یہ بات ثابت ہوجائے گی کہ ریویوز لکھنے والے اور فلمیں بنانے والے دونوں ابھی باکس آفس کی پبلک کے مزاج سے مختلف فلمیں بنارہے ہیں یا ان کی تعریفوں سے ریت کے گھر تعمیر کر رہے ہیں۔
فلم باکس آفس پر کچھ بھی کرے آپ یہ فلم سینما میں جا کر دیکھیں، فلم آپ کو پسند آئے یا نہیں اس بات کا احساس ضرور دلائے گی کہ پاکستان میں فلم بنانے والے بہت اچھی اور ٹیکنکل ساؤنڈ فلمیں بنارہے ہیں۔
نوٹ :
1۔۔ ہر فلم بنانے والا، اُس فلم میں کام کرنے والا اور اُس فلم کیلئے کام کرنے والا، فلم پر باتیں بنانے والے یا لکھنے والے سے بہت بہتر ہے ۔
2۔۔ ہر فلم سینما میں جا کر دیکھیں کیونکہ فلم سینما کی بڑی اسکرین اور آپ کیلئے بنتی ہے ۔فلم کا ساؤنڈ، فریمنگ، میوزک سمیت ہر پرفارمنس کا مزا سینما پر ہی آتا ہے۔ آ پ کے ٹی وی، ایل ای ڈی، موبائل یا لیپ ٹاپ پر فلم کا مزا آدھا بھی نہیں رہتا۔
3۔۔ فلم یا ٹریلر کا ریویو اور ایوارڈز کی نامزدگیوں پر تبصرہ صرف ایک فرد واحد کا تجزیہ یا رائے ہوتی ہے ،جو کسی بھی زاویے سے غلط یا صحیح اور آپ یا اکثریت کی رائے سے مختلف بھی ہوسکتی ہے۔
4۔۔ غلطیاں ہم سے، آپ سے، فلم بنانے والے سمیت سب سے ہوسکتی ہیں اور ہوتی ہیں۔ آپ بھی کوئی غلطی دیکھیں تو نشاندہی ضرور کریں۔
5۔۔ فلم کے ہونے والے باکس آفس نمبرز یا بزنس کے بارے میں اندازہ لگایا جاتا ہے جو کچھ مارجن کے ساتھ کبھی صحیح تو کبھی غلط ہوسکتا ہے۔
6۔۔ فلم کی کامیابی کا کوئی فارمولا نہیں۔ بڑی سے بڑی فلم ناکام اور چھوٹی سے چھوٹی فلم کامیاب ہوسکتی ہے۔ ایک جیسی کہانیوں پر کئی فلمیں ہِٹ اور منفرد کہانیوں پر بننے والی فلم فلاپ بھی ہوسکتی ہیں،کوئی بھی فلم کسی کیلئے کلاسک کسی دوسرے کیلئے بیکار ہوسکتی ہے۔
7۔۔ فلم فلم ہوتی ہے، جمپ ہے تو کٹ بھی ہوگا ورنہ ڈھائی گھنٹے میں ڈھائی ہزار سال، ڈھائی سو سال، ڈھائی سال، ڈھائی مہینے، ڈھائی ہفتے، ڈھائی دن تو دور کی بات دو گھنٹے اور اکتیس منٹ بھی سما نہیں سکتے۔