بلاگ
Time 21 اپریل ، 2018

جنسی ہراسانی، 'سوشل میڈیا منصفین' اور 'کریکٹر سرٹیفکیٹ'

میشا شفیع نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں علی ظفر پر جنسی ہراساں کیے جانے کا الزام عائد کیا تھا، جسے گلوکار مسترد کر چکے ہیں—۔فائل فوٹو

ہم میں سے ہر ایک کی زندگی میں بہت سے ایسے لمحات بھی ہوتے ہیں جو بھلائے نہیں بھولتے۔ یہ لمحے ساری عمر انسان کو اپنی گرفت میں لیے رکھتے ہیں۔کبھی خوف، کبھی دکھ، کبھی دہشت یا ذہنی کرب پر مشتمل یہ لمحات ہمیشہ انسان کے ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔

یہ انسان کی سرشت ہے کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کو کبھی نہیں بھولتا، اُس کے ذہن کے کسی نہ کسی دریچے میں وہ تکلیف دہ یاد کنڈلی مار کر بیٹھی رہتی ہے اور وقتاً فوقتاً اپنے ہونے کا احساس دلاتی رہتی ہے، لیکن ہم اپنے آپ سے جھوٹ بولتے رہتے ہیں کہ ہاں ہم بہت مضبوط ہیں اور ہمیں کسی چیز سے فرق نہیں پڑتا لیکن پھر آخر کار یہ آتش فشاں پھٹ پڑتا ہے اور سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔

میں نے یہاں ایک بہت عام سی بات کی ہے، مرد اور عورت کی تخصیص کیے بغیر، لیکن اگر میں یہاں تخصیص کرتے ہوئے جنسی ہراساں کیے جانے خصوصاً خواتین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کی بات کروں اور یہ کہوں کہ ہمارے معاشرے کی ہر عورت زندگی میں کبھی نہ کبھی، کسی نہ کسی مقام پر جنسی طور پر ہراساں کی گئی تو کیا میں غلط ہوں؟

اور اگر میں یہ کہوں کہ ان خواتین میں سے بیشتر نے اس تکلیف دہ یاد کو، اُس سے منسلک خوف کو محض اس لیے اپنے اندر دفن کرلیا کہ 'لوگ کیا کہیں گے' تو کیا آپ میری بات سے اختلاف کریں گے؟ شاید نہیں کیونکہ یہ وہ حقیقت ہے کہ لوگ اس سے نظریں تو چرا سکتے ہیں لیکن اختلاف نہیں کرسکتے۔

یہ زمین ہے صاحب، جنت نہیں! یہاں انسانوں کے ساتھ ساتھ کچھ 'دیگر مخلوق' بھی بستی ہے جو عورت کو جنسی ہراساں کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے۔

اگر آپ عورت ہیں تو اس سوال کا جواب بخوبی دے سکیں گی اور اگر مرد ہیں تو اس کا جواب جاننے کے لیے آپ کو اپنے اردگرد موجود خواتین پر نظر دوڑانی پڑے گی۔ آپ کی ماں، بہن، بیوی، بیٹی یا گھر سے باہر دفتر کی ساتھی خواتین ۔۔۔ ہر ایک کے پاس ایک سے زائد کہانیاں موجود ہوں گی۔

یہ وہ اَن کہی داستانیں ہیں جنہیں بیان کرنے سے انہیں ہمیشہ روکا جاتا ہے یا پھر وہ خود ہی کسی خوف کا شکار ہو کر خاموشی اختیار کرلیتی ہیں اور اگر کوئی خاموشی توڑے تو اسے 'کیریکٹر سرٹیفکیٹ' تھما دیا جاتا ہے کہ 'یہ تو ہے ہی ایسی تبھی اس کے ساتھ یہ ہوا'۔

نہیں جناب، ہر مرتبہ عورت ہی غلط نہیں ہوتی، اس معاشرے کے کچھ مرد بھی دودھ کے دھلے نہیں!

یہ جو آج ہر طرف سے 'می ٹو' کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ خواتین اپنی خاموشی توڑ رہی ہیں اور خود پر بیتے گئے واقعات اور ان ناپسندیدہ اور خوف کے لمحات کو سامنے لا رہی ہیں، جس پر انہیں 'ویمن کارڈ' کے استعمال کا طعنہ دے کر مزید ہراساں کیا جارہا ہے۔

چلیں اگر یہ دلیل مان بھی لی جائے، جو آج کل بہت سے لوگ دیتے نظر آرہے ہیں کہ جنسی ہراسانی کا شکار ہونے والی خواتین نے مردوں کو خود دعوت دی، ان سے مسکرا کر ملیں، انہیں خود قریب آنے کا موقع دیا، تو بھی اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا جائے۔

میشا شفیع نے علی ظفر پر الزامات عائد کرکے جو بھونچال کھڑا کیا ہے، اسے ایک ہائی پروفائل کیس کا درجہ مل چکا ہے اور آج کل ہر کوئی اسی بارے میں بات کر رہا ہے۔ کوئی تنقید کر رہا ہے، کوئی تعریف تو کسی نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔

علی ظفر تو ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ وہ میشا کے خلاف عدالت جائیں گے، جہاں یہ ثابت ہوگا کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا، لیکن یہاں تو سوشل میڈیا اور ہمارے اردگرد موجود لوگوں نے اپنی اپنی ذاتی عدالتیں لگا رکھی ہیں اور 'خودساختہ منصفین' میشا اور علی ظفر کو مزید 'ہراساں' کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر تبصروں کا ایک دریا ہے جو بہے چلا جارہا ہے اور ساتھ ساتھ لوگوں کے خیالات بھی عیاں کرتا جارہا ہے۔

یہ سچ ہے کہ میں شاید کبھی 'می ٹو' کا حصہ نہ بن پاؤں، مجھ میں اتنی ہمت ہی نہیں ہے۔ ہاں، بحیثیت ایک عورت میں میشا کو کسی نہ کسی حد تک سپورٹ ضرور کروں گی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ علی ظفر بھی مجھ سمیت بہت سوں کے فیورٹ ہیں اور لوگ چاہتے ہیں کہ اس 'ہائی پروفائل کیس' کا فیصلہ مناسب فورم یعنی عدالت میں ہی ہو، نہ کہ سوشل میڈیا کے ایوانوں میں۔

اب الزامات درست ثابت ہوتے ہیں یا غلط، یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن اس واقعے کے بعد مزید بہت سی کہانیاں بھی سامنے آرہی ہیں، معلوم نہیں یہ سلسلہ کہاں جاکر رکے گا، لیکن ہم امید ضرور کرسکتے ہیں کہ آئندہ کوئی بھی شخص کسی بھی خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کرنے سے پہلے سو مرتبہ ضرور سوچے گا۔

ہاں لیکن اس بات کی گارنٹی شاید ہی کوئی دے سکے کہ آیا سوشل میڈیا پر بیٹھے منصفین کی عدالتیں اور ان کی جانب سے کیریکٹر سرٹیفکیٹس دینے کا سلسلہ بھی رکے گا یا نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔