Time 08 مئی ، 2018
صحت و سائنس

تھیلیسیمیا کا عالمی دن: بلوچستان میں اس بیماری کی شرح سب سے زیادہ

بلوچستان میں تھیلیسیمیا کےمرض کی شرح سب سےزیادہ ہے اور روز بروز ایسے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے—.فوٹو/ عقمی راجر

آج دنیا بھر میں خون کی کمی یعنی 'تھیلیسیمیا' کا عالمی منایا جا رہا ہے، جس کا مقصد اس مرض میں اضافے اور وجوہات کے بارے میں شعور کی بیداری ہے۔

تھیلسیمیا ایک ایسی جینیاتی بیماری ہے جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔

اس بیماری کے ذکر کے ساتھ ہی تصور میں بے بسی کی تصویر بننے لگتی ہے اور آنکھوں کے سامنے وہ بچے اور نوجوان آجاتے ہیں جن کی زندگی کا انحصار صرف اور صرف تازہ خون ملنے اور بہتر نگہداشت پر ہوتا ہے اور اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہو تو زندگی ان کے لیے آزمائش بن جاتی ہے۔

رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں بھی اس بیماری کی صورتحال تشویشناک ہوتی جار ہی ہے۔

دارالحکومت کوئٹہ میں واقع بولان میڈیکل کمپلیکس اسپتال اور تھیلیسیمیا کیئر سینٹر کے سربراہ ہیماٹالوجی پروفیسر ڈاکٹر ندیم صمد شیخ نےجیو نیوز کو بتایا کہ ہمارے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں ہرسال تقریباً ایک ہزار بچے تھیلیسیمیا کے مرض کے ساتھ پیدا ہو رہے ہیں۔

کوئٹہ میں واقع بولان میڈیکل کمپلیکس اسپتال اور تھیلیسیمیا کیئر سینٹر—.فوٹو/عقمی راجر

انہوں نے بتایا کہ ان بچوں میں کچھ تو رجسٹرڈ ہوجاتے ہیں مگر زیادہ تر رجسٹرڈ نہیں ہوپاتے اور گھروں میں ہی رہتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان میں تھیلیسیمیا کےمرض کی شرح سب سےزیادہ ہے اور روز بروز ایسے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔

ان  کا کہنا تھا کہ صوبے کے بلوچ اور پشتون قبائل میں یہ مرض زیادہ شدت سے سامنے آرہا ہے۔ بلوچ اکثریت علاقوں میں یہ شرح آٹھ اعشاریہ ایک ریکارڈ کی گئی ہے جب کہ پشتون اکثریتی علاقوں میں یہ شرح پانچ اعشاریہ چھ فیصد ہے۔ 

مقامی لوگ حتیٰ کہ رشتے دار بھی تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں کے والدین سے ضرورت کے وقت کتراتے ہیں

انہوں نے بتایا کہ تھیلیسیمیا کی بیماری کی وجوہات میں اس جین کے حامل افراد کی لاعلمی کی بنا پر شادی کا ہونا ہے۔

 ڈاکٹر ندیم صمد شیخ کے مطابق تھیلیسیمیا مائنر جین کے حامل دو افراد آپس میں شادی کرلیں تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والےکچھ بچے تھیلیسیمیا میجر کا شکار ہوسکتے ہیں، اس کا ایک بڑا سبب کزن میرج (خاندان میں شادی) کا تسلسل بھی ہے۔

تھیلیسیما کی شکار دو معصوم بچیاں—.فوٹو/ عقمی راجر

صوبے میں بیماری کی بڑھتی ہوئی شرح کےساتھ تشویشناک بات یہ بھی ہے کہ مریضوں کے لیے خون کی دستیابی اور اندرون صوبہ سہولیات کی عدم فراہمی بڑا مسئلہ بن رہی ہے۔

تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں کے والدین کے لیے ضرورت کے وقت خون کا بندوبست کرنا بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔کئی علاقوں میں صحت مند اور اسکرین شدہ خون دستیاب نہیں ہوتا۔ مقامی لوگ حتیٰ کہ رشتے دار بھی تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں کے والدین سے ضرورت کے وقت کتراتے ہیں کہ کہیں وہ ان سے خون دینے کا مطالبہ نہ کردیں۔ ایک حوالے سے ایسے والدین کو سماجی تنہائی کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کوئٹہ کے علاقے سریاب سے تعلق رکھنے والے تھیلیسیمیا کے شکار دو بچوں کے والد کا کہنا تھا کہ ضرورت کے وقت ان کے بچے کو خون کامسئلہ رہتا ہے۔بولان میڈیکل کمپلیکس اسپتال کے تھیلیسیمیا کیئر سینٹر میں سہولیات تو موجود ہیں مگر مسئلہ خون کا ہوتا ہے اور اس کی کافی کمی ہے،کبھی مل جاتا ہے تو کبھی نہیں ملتا، ایسے میں اپنا ڈونر ہی تلاش کر کے لانا پڑتا ہے۔

تھیلیسیما کی شکار معصوم بچی کو خون لگایا جا رہا ہے—.فوٹو/ عقمی راجر

مستونگ سے تعلق رکھنے والے تھیلیسیمیا کے شکار ایک بچے کے رشتہ دار کا کہنا تھا کہ انہیں مستونگ سے بچے کو خون لگوانے اور علاج کے لیے کوئٹہ آنا پڑتا ہے۔اگر ان کے علاقے میں سہولت میسر ہو تو انہیں آسانی ہوجائے گی۔ ان کے سفر کا خرچہ بھی بچے گا اور انہیں بچوں کے لیے خون بھی وہیں سے مل جائے گا۔

تھیلیسیمیا کے بڑھتے کیسز کے پیش نظر کوئٹہ کے علاوہ سرکاری سطح پر گوادر، تربت، بارکھان اور مستونگ میں بھی تھیلیسیمیا کیئر سینٹرز قائم کیے جارہے ہیں۔

بولان میڈیکل کمپلیکس اسپتال اور تھیلیسیمیا کیئر سینٹر کے ڈاکٹرز بچوں کا معائنہ کرتے ہوئے—. فوٹو/ عقمی راجر

خوش آئند بات یہ ہے کہ اس بیماری کی روک تھام کے لیے قانون بن چکا ہے۔ قانون کے تحت نکاح خواں پابند ہوگا کہ تھیلیسیمیا کی رپورٹ دیکھنے کے بعد لڑکے اور لڑکی کا نکاح کرائے، تاہم اس سلسلے میں کوئی سزا وغیرہ تجویز نہیں کی گئی ہے۔

مزید خبریں :