Time 24 مئی ، 2018
بلاگ

میشا شفیع اور علی ظفر تنازع: بات تو اچھی کرلیا کریں!

میشا شفیع نے گزشتہ ماہ علی ظفر پر جنسی ہراساں کیے جانے کا الزام عائد کیا تھا،جس کی انہوں نے تردید کردی تھی۔—۔فائل فوٹو

ایک اداکار، فلم اسٹار، گلوگار، ماڈل، باپ، بھائی اور بیٹے کے بارے میں ایک اداکارہ، فلم اسٹار، گلوگارہ، ماڈل، ماں، بہن اور بیٹی نے الزام لگایا ہے کہ جناب نے ایک بار نہیں بلکہ کئی بار انہیں جنسی طور پر ہراساں کیا۔ بات ہو رہی ہے علی ظفر اور میشا شفیع کی۔ میں اس بات پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا کہ کون جھوٹا ہے اور کون سچا؟ مگر میں اُن تمام لوگوں کو ضرور کچھ کہنا چاہتا ہوں جو فیس بک اور ٹوئٹر پر زہر اُگلنے سے نہیں کتراتے۔

جب میں نے یہ سارا قصہ سنا تھا تو مجھے بل کوسبی یاد آگئے تھے۔ بل کوسبی جو اب 80 برس کے ہیں، آج کل عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں اور پوری دنیا میں ذلالت کی ایک تصویر بنے ہوئے ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ پینسلوانیا میں انہوں نے اپنے گھر پر 50 سال کے دوران کئی خواتین کو نشے کی گولیاں دے کر بیہوش کرنے کے بعد جنسی زیادتی کا شکار بنایا۔

جب کینیڈین باسکٹ بال اسٹار اینڈریا کونسٹینڈ نے بل کوسبی کو کورٹ میں گھسیٹا تو 19 مزید خواتین بھی سامنے آگئیں کہ ان کے ساتھ بھی بل کوسبی نے یہی گھناؤنی حرکت کی تھی۔ ان میں سے 5 تو عدالت میں اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی کی تفصیل بتا چکی ہیں اور اب جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے خلاف شروع کی گئی 'می ٹو مہم' کے بعد امکان ہے کہ بل کوسبی کو 10 سال کی سزا تو ہو گی ہی۔

میں 'بل کوسبی شو' دیکھتے دیکھتے بڑا ہوا ہوں۔ ایک پروفیشنل کامیاب والدین کی کہانی، جن کے 5 بچے تھے۔ اس شو کے آن ایئر ہوتے ہی بل کوسبی شو کے سارے کردار پوری دنیا میں انگریزی بولنے اور سمجھنے والوں کے گھر کا حصہ بن گئے۔ بل کوسبی نے ایک گائناکولوجسٹ (ماہرِ امراض نسواں) کا کردار ادا کیا تھا جن کے پانچ بچوں میں سے  صرف 1 بیٹا تھا اور باقی پورے گھر میں صرف خواتین یعنی بل کوسبی کی بیگم اور 4 بیٹیاں تھی۔

1984 سے 1992 تک ہکس ٹیبل فیملی پوری دنیا میں ٹی وی پر چھائی رہی، لیکن جب بل کوسبی کے کالے کرتوتوں پر سے پردہ ہٹا تو ساری دنیا کے ساتھ میرا دل بھی بری طرح سے ٹوٹا تھا۔ بچپن کی یادوں کی ایسی کی تیسی ہوگئی۔ بل کوسبی جو بچوں سے کھیلتا تھا، کہانیاں سناتا تھا، خواتین کے حقوق کے لیے کھڑا ہوتا تھا، ساری دنیا کو ہنساتا تھا، انسان کے روپ میں جانور نکلا۔ آج بھی 19 عورتوں کی گواہی کے بعد کئی ایسے لوگ ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ یار بل کوسبی والا کیس سمجھ میں نہیں آتا، وہ ایسا لگتا تو نہیں ہے، ایسے لوگوں کے بارے میں کچھ کہنا یا لکھنا واقعی 'بھینس کے آگے بین بجانے' کے مترادف ہے ۔

لوگ میشا کے بچپنے سے لے کر شادی تک کی ہر تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کر رہے ہیں اور اس لیے ناراض ہیں کہ میشا ان کی امی اور بہن کی طرح سر پر ڈوپٹہ کیوں نہیں لیتی۔

میں میشا شفیع کو نہیں جانتا، ہاں کئی سال پہلے ایک بار ملا ضرور تھا، مگر نا تو مجھے ان کا گانا پسند ہے اور نا ہی ایکٹنگ۔ ٹوئٹر پر میں ان کو فولو بھی نہیں کرتا تھا، لیکن جب انہوں نے ہمت کرکے ہم سب کو یہ بتایا کہ علی ظفر نے انہیں ایک بار نہیں بلکہ کئی بار جنسی طور پر ہراساں کیا یا کوشش کی ہے، تو میں کون ہوتا ہوں سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنے والا! مگر پہلے سنیے ٹوئٹر کی کہانی۔ مردوں کو چھوڑیں سب سے زیادہ دکھ کی بات تو یہ ہے کہ خواتین نے سب سے پہلے میشا شفیع کو جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی۔

سوال آیا: علی ظفر ایسا کیسے کرسکتا ہے؟

میرا جواب : پچھلے سال آپ کے ملک میں یہ کچھ ہوا۔ 502 ریپ کیسز، 217 گینگ ریپ کیسز، 268 گینگ سوڈومی، 362 بچوں کی جنسی زیادتی کی کوشش کے مقدمات۔

کسی نے کہا: میرا دل کہہ رہا ہے کہ وہ سچ کہہ رہا ہے۔

میرا جواب: ایسے بہت سارے لوگ ہیں جن کا دل کہتا ہے کہ ہمارے سیاست دان سچے ہیں، آپ کو دل کا دورہ پڑ جائے تو بہتر ہے۔

ایک اور اعتراض آیا: کل تک تو دونوں ایک دوسرے کے ساتھ تصویریں کھنچوا رہے تھے۔

میرا جواب: ایک رپورٹ کے مطابق زیادتی کے زیادہ تر کیسز میں عموماً قریبی رشتے دار ملوث ہوتے ہیں جن پر شک کرنے یا تصویر کے لیے منع کردینے کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا۔

کسی نے نکتہ اٹھایا: میشا نے پہلے کیوں کچھ نہیں کہا؟

میرا جواب: اس لیے نہیں کہا کیونکہ شاید وہ جانتی تھی کہ اُس کا کس قسم کے لوگوں سے پالا پڑا ہے جو میشا کے بچپنے سے لے کر شادی تک کی ہر تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کر رہے ہیں اور اس لیے ناراض ہیں کہ میشا ان کی امی اور بہن کی طرح سر پر ڈوپٹہ کیوں نہیں لیتی۔

ایک نے کہا: میں علی ظفر سے مل چکی ہوں وہ ایسا بالکل نہیں لگتا۔

میرا جواب: جنسی طور پر ہراساں کرنے والوں کے سینگ نہیں ہوتے، وہ بالکل ہمارے اور آپ جیسے لوگ ہوتے ہیں۔ زندہ سانس لیتے انسان اور کبھی کبھی بڑے ٹیلنٹڈ بھی ہوتے ہیں۔

بڑا ہی عجیب سا نکتہ: میشا کو علی کی فیملی کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا۔

میرا جواب: میشا کو علی کو اُسی وقت تھپڑ مارنا چاہیے تھا اور تھپڑ رسید ہوتے ہی علی ظفر کو اپنی فیملی یاد آجانی تھی۔

کسی نے دلیل دی: علی ظفر نے لاکھوں روپے کے عطیات  دے کر ملک کی لڑکیوں کی زندگی بدل دی۔

میرا جواب: یوکے میں جمی سوائل نے 60 سال میں لاکھوں پاؤنڈز بچوں کے اسپتالوں اور اسکولوں پر خرچ کیے اور جب صاحب مر گئے تو پتا چلا کہ انہوں نے کئی سو بچوں کو زیادتی کا شکار بنایا اور ملک کی تاریخ میں جمی سوائل جیسے درندے کی مثال نہیں ملتی۔

خاموشی جب اپنے لیے ہی جرم بن جائے تو کیا کیجیے؟ کہہ دیجیے! 

میشا نے یہی کیا اور اس کے بعد سے چند مزید خواتین بھی سامنے آچکی ہیں۔ علی ظفر کے لیے بات بگڑتی لگ رہی ہے۔ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں علی نے پہلے سب کو یہ باور کروایا تھا کہ وہ ایک بیٹے بھی ہیں، شوہر ہیں، بھائی ہیں اور وغیرہ وغیرہ۔ مجھے تو اس میں کوئی دلیل نہیں نظر نہیں آتی۔ انہوں نے میشا سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ یہ سب کچھ کب ہوا اور کہاں ہوا؟ انہوں نے کہا کہ وہ کورٹ جائیں گے اور سچ ثابت کریں گے اور انہوں نے یہ کر بھی ڈالا، جبکہ علی کے قانونی نوٹس کا جواب میشا کی جانب سے بھی دیا جاچکا ہے۔ یہی صحیح طریقہ بھی ہے اور انصاف کا تقاضہ بھی۔ ایک پڑھے لکھے عزت دار شخص سے یہی امید کی جاسکتی تھی۔

یہ قصہ ابھی جلدی ختم ہونے والا نہیں لیکن پی ٹی آئی کی لیڈر فردوس عاشق اعوان صاحبہ کے خیالات سن کر طبیعت 'خوش' ہوگئی۔ محترمہ نے ایک پروگرام میں بیٹھ کر بڑے وثوق سے فرمایا کہ ہیریسمنٹ (ہراساں) صرف اُس وقت ہوتی ہے جب کوئی عورت خود موقع دے۔ ایک خاتون کے منہ سے ایسی بات سن کر، جو نہ صرف ڈاکٹر ہیں بلکہ سیاستدان بھی ہیں، غصے سے میرا چہرہ سرخ ہوگیا اور دل چاہا کہ فلائٹ پکڑ کے پاکستان جاؤں اور ڈاکٹر صاحبہ سے پوچھوں کہ ان کا بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا قصور میں ہونے والے زیادتی کے ہولناک واقعے میں معصوم زینب بھی برابر کی قصور وار تھی؟

میرا مشورہ ہے کہ آئندہ اگر کوئی ہراساں کیے جانے کے معاملے میں 'تالی دو ہاتھ سے بجتی ہے' والی دلیل دے تو بلا جھجک اُس کے منہ پر ایک تھپڑ رسید کردیجیے گا اور فرمائیے گا آپ اپنے منہ کو چھپانے کا بندوبست کیجیے ورنہ تھپڑ صرف ایک ہاتھ سے نہیں پڑتا، اس کے لیے منہ بھی درکار ہوتا ہے!


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔