اس عید پر مہندی کے مقبول ٹرینڈز کیا ہیں؟ حنا آرٹسٹس سے جانیے

اکثر خواتین کی عید مہندی کے بغیر ادھوری رہتی ہے—۔فوٹو/ بشکریہ ریڈ موز کری ایٹوز فوٹوگرافر

ہر تہوار، ہر موقع اپنے اندر کچھ خاص ادا، کچھ خاص رسومات، کچھ خاص لوازمات سموئے ہوتا ہے۔ اب زمانہ ہے عید الفطر کا تو اس خاص تہوار کے خاص لوازمات میں بھلا کیا کیا شمار ہوتا ہے؟

ارے ہاں شیر خرما تو ہوتا ہی ہے لیکن کچھ اور بھی ہے، جس کا خواتین سے بڑا گہرا اور خصوصی تعلق ہے۔ ارے ارے چوڑیاں نہیں، یہاں مابدولت مہندی یعنی حنا کی بات کر رہے ہیں۔

اپنے نام کے دوسرے حصے کی طرح مجھے بھی بچپن سے مہندی بہت پسند رہی ہے۔مذاق سے ہٹ کر گیلی گیلی مہندی کی خوشبو اور پھر اسے ہاتھوں پر لگا کر پوری رات اس انتظار میں کاٹنا کہ پتہ نہیں مہندی کا رنگ کیسا آئے گا، اس سب کا ایک الگ ہی سرور تھا، جو بھلائے نہیں بھولتا۔

گول ٹکی کا زمانہ کبھی پرانا نہیں ہوگا—۔فوٹو/ بشکریہ اسٹائلز گلیمر ڈاٹ کام

بچپن میں ہم مہندی لگوانے کا شوق یوں پورا کرتے کہ محلےکی کسی لڑکی یا باجی کے گرد سب جمع ہوجاتے اور وہ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق ڈیزائن بنا دیتیں، جو آج کل کے ڈیزائنز کے برعکس موٹے اور بڑے بڑے ہوتے تھے لیکن اُس وقت کا یہی رواج تھا اور اگر اور کچھ سمجھ نہ آتا تو امی سے یا بڑی بہن سے گھر میں سادہ سی ٹکی بھی بنوا لیا کرتے تھے،  پھر جب خود بڑے ہوئے تو مہندی لگانے کا فن سیکھا اور دوسروں پر آزمایا بھی۔

رفتہ رفتہ یہ شوق تو مدھم پڑ گیا لیکن مہندی کی خوشبو سے عشق ختم نہیں ہوا۔ یہ الگ بات کہ اب یہ خوشبو زیادہ تر کیمیکلز سے مزین ہوتی ہے لیکن پھر بھی۔۔!

وقت کے ساتھ ساتھ مہندی کے ڈیزائنز میں بھی جدت آتی جارہی ہے، آج کل مہندی کے فیشن میں کیا 'اِن' ہے اور کیا 'آؤٹ'، یہ جاننے کے لیے ہمیں کچھ مہندی آرٹسٹس سے رابطہ کرنا پڑا۔

عربی اور سوڈانی مہندی کا فیشن اب اتنا زیادہ اِن نہیں ہے—۔ فوٹو/ بشکریہ بیوٹی ٹپس اسمارٹ

سب سے پہلے میں نے بات کی کراچی سے تعلق رکھنے والی مہوش خان سے، جو گزشتہ 4 سال سے ایک پروفیشنل مہندی آرٹسٹ کے طور پر کام کر رہی ہیں، جن کے کام کے سبھی معترف ہیں اور ان کی لگائی گئی مہندی دیکھ کر یقیناً آپ بھی گرویدہ ہوجائیں گے۔

مہوش نے بتایا کہ خواتین آج کل باریک مہندی زیادہ پسند کر رہی ہیں، خصوصاً عید وغیرہ کے تہواروں پر جبکہ شادی بیاہ کے مواقع پر دلہنیں اپنی مرضی کے ڈیزائن لگواتی ہیں۔

مہوش مہندی لگانے کے 200 روپے فی سائیڈ سے 8000 روپے مکمل پیکج وصول کرتی ہیں، جو ڈیزائن پر منحصر ہوتا ہے۔

مہوش کی لگائی گئی مہندی یہاں ملاحظہ کریں:

تصاویر/ بشکریہ مہوش خان—۔

کشمینہ حرا خان نیازی بھی مہندی آرٹسٹ ہیں لیکن وہ اسے بطور مشغلہ یعنی ہابی اپنائے ہوئے ہیں۔

کشمینہ نے بڑے پتے کی بات کی، جب میں نے ان سے مہندی کے حالیہ ٹرینڈز (Current Trends) کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ 'میرے نزدیک جیولری یا مہندی کا کوئی حالیہ ٹرینڈ نہیں ہوتا، کرنٹ ٹرینڈ وہی ہے جسے میں فالو کرنا چاہتی ہوں یا جنہیں میں پسند کرتی ہوں' اور واقعی میں بھی کشمینہ کی اس بات سے متفق ہوں کہ ٹرینڈ وہی جو اپنے من کو بھائے!

کشمینہ نے بتایا کہ آج کل خواتین کو انڈین ڈیزائن زیادہ پسند آتے ہیں جو باریک اور دِکھنے میں زیادہ خوبصورت لگتی ہے لیکن عربی اور سوڈانی ڈیزائن کی بھی اپنی ہی خوبصورتی ہوتی ہے۔ بقول کشمینہ 'یہ ڈیزائن مہندی آرٹسٹ کی تخلیق ہوتے ہیں اور تخلیق چاہے جیسی بھی ہو وہ اپنے اندر دلچسپی سموئے ہوئے ہوتی ہے'۔

چارجز کے حوالے سے کشمینہ نے بتایا کہ وہ پروفیشنلی یہ کام نہیں کرتیں لیکن کچھ حنا آرٹسٹس ایک ہاتھ کی فی سائیڈ کے 100 روپے تو کوئی 75 روپے وصول کرتی ہیں اور یہ ڈیزائن پر انحصار کرتا ہے۔

تصاویر/بشکریہ کشمینہ حرا خان نیازی—۔

جویریہ اسد بھی گزشتہ 2 سال سے بحیثیت حنا آرٹسٹ کام کر رہی ہیں، وہ آرگینک مہندی کو ترجیح دیتی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس عید پر لوگ لائٹ مہندی زیادہ پسند کر رہے ہیں، خصوصاً انگلیوں کی پوروں پر اور سمپل ٹکیہ وغیرہ۔

جویریہ نہ صرف ہاتھوں پر بلکہ پاؤں پر بھی نہایت باریک اور نفیس مہندی لگاتی ہیں جبکہ فیس بک پر 'ہاؤس آف حنا' کے نام سے ان کا ایک پیج بھی ہے۔

کچھ ڈیزائنز یہاں ملاحظہ کریں:

تصاویر/بشکریہ جویریہ اسد—۔

نہیا خان کو 12 سال کی عمر میں مہندی لگانے کا شوق ہوا، لیکن پروفیشنلی انہوں نے اُس وقت مہندی لگانی شروع کی، جب وہ میٹرک کلاس میں تھیں۔

نیہا نے بتایا کہ انہوں نے باقاعدہ کوئی کورس نہیں کیا تھا بس یوٹیوب سے دیکھ دیکھ کر مہندی لگانی سیکھی، جس میں انہیں ایک مہینہ لگا اور جب عید آئی تو گھر کے باہر بورڈ لگاکر انہوں نے مہندی لگانا شروع کردی۔ نیہا کا پہلا ریٹ 40 روپے فی سائیڈ تھا۔

انہوں نے بتایا، 'جب میں نے مہندی لگانی شروع کی تو اُس وقت سوڈانی، عربی اور راجھستانی مہندی اِن تھی اور باریک مہندی کا اتنا تصور نہیں تھا'۔

تصاویر/بشکریہ نیہا خان—۔

چارجز کے حوالے سے سوال پر نیہا نے بتایا کہ وہ ایک ٹیکسٹائل ڈیزائنر بھی ہیں تو انہیں وقت نہیں ملتا، یہی وجہ ہے کہ وہ سیزنل یا خاص مواقعوں پر ہی مہندی لگاتی ہیں۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ 'میرے نزدیک مہندی ایک خوشی کا نام ہے اور خوشی کی کوئی قیمت نہیں ہوتی لیکن ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ آرٹ کی قیمت بے شک دو تین روپے بھی کیوں نہ ہو، لے لینی چاہیے'۔

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ 'کسٹمرز کا اطمینان میرے لیے سب سے زیادہ اہم ہے، میں پیسوں کو نہیں دیکھتی'۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس طرح فیشن اور اسٹائل کے رنگ ڈھنگ بدلے ہیں، مہندی کے ڈیزائن اور پسند نا پسند میں بھی کافی تبدیلی آئی ہے اور بہت سی مہندی آرٹسٹس سے بات کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ہمارے بچپن والی وہ عربی اور سوڈانی مہندی اب آؤٹ ڈیٹڈ ہوچکی ہے، اب تو باریک (انڈین) مہندی کا زمانہ ہے، جسے لگانا واقعی بہت مشکل اور مہارت طلب کام ہے لیکن ہاتھوں میں لگی ہو تو ایسا معلوم ہوتا ہے گویا کوئی نازک سی پینٹنگ ہو۔ ہاں، لیکن گول ٹکی کا زمانہ شاید کبھی پرانا نہ ہو بلکہ اس میں بھی مزید جدت آتی جا رہی ہے۔

فوٹو/بشکریہ اسکوپ وہوپ—۔

وائٹ مہندی بھی فیشن میں ہے، لیکن یہ بہت کم لوگوں کے من کو بھاتی ہے۔

اور ایک بات اور مہندی ڈیزائن کی باریکی اور نفاست کے ساتھ پیسے بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں، لیکن وہ کیا ہے نا کہ شوق کا کوئی مول نہیں تو خواتین اس پر تھوڑا نہیں اچھا خاصا کمپرومائز کرلیتی ہیں، خصوصاً عید کے موقع پر کہ بھئی آخر مہندی لگوائے بغیر بھی عید ہوتی ہے بھلا!


مزید خبریں :