پاکستان
27 جولائی ، 2012

عدالتی حکم مانا جائے تو توہین عدالت قانون کی ضرورت نہیں، چیف جسٹس

عدالتی حکم مانا جائے تو توہین عدالت قانون کی ضرورت نہیں، چیف جسٹس

اسلام آباد … چیف جسٹس پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دئیے ہیں کہ کیا یہ ضروری ہے کہ توہین عدالت کا ڈنڈا اٹھا کر لوگوں کے پیچھے پھرتے رہیں، عدالت کا حکم ماننے کی اقدار ہوں توکیا اس کے بعد توہین عدالت کے قانون کی ضرورت ہے۔ جسٹس تصدق جیلانی کا کہنا تھا کہ آئین کا آرٹیکل 204 کسی کو توہین عدالت سے استثنا نہیں دیتا۔ جسٹس جواد خواجہ کا کہنا تھا کہ برطانیہ کی 500سال کی تاریخ میں ایک کیس ایسا نہیں جو عدالت کی حکم عدولی سے متعلق ہو۔ چیف جسٹس پاکستا ن جسٹس افتخار محمد چوہدر ی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے توہین عدالت کے نئے قانون کے خلاف دائر 25آئینی درخواستوں کی مسلسل سماعت پانچویں روز بھی کی، عدالتی وقت ختم ہونے پر سماعت پیر تک کیلئے ملتوی کر دی گئی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسی قانون سازی پہلی مرتبہ نہیں ہوئی ہمیں نہیں پتا لیکن پارلیمنٹ کی بحث میں کہا گیا کہ یہ قانون کچھ شخصیات کیلئے لایا گیا ہے۔ عدالت نے درخواست گزار وکیل راجا افراسیاب کو کہا کہ وہ احتیاط کریں، این آر او عملدرآمد کیس زیر التوا ہے اس مقدمے کے ساتھ وزیر اعظم کے کیس کو نہ جوڑیں۔ نواز شریف دور میں بھی ایسا قانون لایا گیا تھا تاہم پھر خود ہی اسے ختم کر کے نیاقانون لایا گیا جو بعد میں ختم ہوتا رہا۔ سندھ بار کونسل کی طرف سے رشید اے رضوی نے توہین عدالت ایکٹ کی مخالفت میں دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ توہین عدالت کا یہ قانون 1993ء میں آزاد جموں و کشمیر میں متعارف کرایا گیا جسے وہاں کی عدالت کے فل بینچ نے کالعدم قرار دے دیا تھا، نیا قانون اختیارات کی تقسیم کے آئینی اسکیم کے منافی اور عدالتی اختیار میں مداخلت ہے۔ بیرسٹر ظفراللہ ایڈووکیٹ کے دلائل پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ کہنا چاہ رہے ہیں کہ نئے قانون کی موجودگی میں عدالت کے وقار میں کمی اور فیصلوں کی حیثیت محض کاغذ کے ٹکڑے کی رہ جائے گی۔ عدالت نے پیر 12 بجے تک باقی درخواست گزاروں کو دلائل مکمل کرنے کے بعد وفاقی حکومت کے وکیل عبدالشکور پراچہ کو دلائل شروع کرنے کی ہدایت بھی کی ہے۔

مزید خبریں :