عسکری پارک حادثہ: بولٹ ٹوٹنے اور گراریاں سلپ ہونے سے جھولا گرا، تحقیقاتی رپورٹ

واقعے کے 15 زخمیوں کو طبی امداد کے بعد اسپتالوں سے فارغ کردیاگیا: فوٹو/ جیونیوز

کراچی کے عسکری ایمیوزمنٹ پارک میں گزشتہ رات جھولا زمین پر آگرا، ہنستے کھیلتے لوگ ٹنوں وزنی لوہے تلے دب گئے اور ایک 14 سال کی طالبہ جان سے گئی۔

چیختے چلاتے لوگ ہاتھوں سے جھولا اٹھانے کی کوشش کرنے لگے، ابتدائی تحقیقات کے مطابق جھولا بولٹ ٹوٹنے اور گراریاں سلپ ہونے کی وجہ سے گرا،المناک واقعے کے بعد عسکری پارک 15 دن کیلئے بند کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

عسکری پارک میں جھولا کیسے گرا؟

پولیس نے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا ہے کہ جھولا بولٹ ٹوٹنے اور گراریاں سلپ ہونے کی وجہ سے گرا۔

کمشنر کراچی کے مطابق جھولا ٹرائل پر چلایا جارہا تھا۔مالکان کو بھی تحقیقات میں شامل کیا جائے گا جبکہ انتظامیہ نے پارک کو 15 دن کیلئے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ترجمان کمشنر کراچی نےبتایا کہ عسکری پارک میں جھولا گرنے سے ایک لڑکی جاں بحق ہوئی، واقعے کے 10 زخمی جناح، 3 سول اور 2 نجی اسپتال منتقل کیے گئے تھے، 15 زخمیوں کو طبی امداد دینے کے بعد اسپتالوں سے فارغ کردیا گیا ہے جب کہ ایک زخمی جناح اور ایک سول اسپتال میں زیر علاج ہے۔

ممتاز صنعتکار زبیر طفیل کا نام عسکری پارک کے شیئرہولڈر کے طور پر سامنے آیا ہے۔

جیونیوز سے گفتگو میں زبیر طفیل نے بتایا کہ جھولا چین سے منگوایا گیا اور ایک ہفتے پہلے ہی عوام کیلئے کھولا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جھولے میں لگے 20 بولٹس کے ایک ساتھ ٹوٹنے کا امکان بہت کم ہوتا ہے، ممکن ہے یہ تخریب کاری ہو البتہ جھولا نصب کرنے والی چینی کمپنی کے انجینئر کو فوری طلب کرلیا گیا ہے۔

پارک میں نصب جھولے آئی ٹی سی گروپ نامی کمپنی کی ملکیت ہیں۔جیونیوز نے کمپنی کے ایم ڈی کا مؤقف لینا چاہا مگر اُنہوں نے اپنا فون بند کررکھا ہے۔

جیو نیوز کی ٹیم پی ای سی ایچ ایس میں واقع کمپنی کے دفتر بھی گئی مگر کوئی مؤقف نہیں دیا گیا۔

بلدیاتی اداروں کا پارک کی ملکیت تسلیم کرنے سے انکار

دوسری جانب بلدیاتی اداروں نے پارک کی ملکیت سے انکار کردیا ہے۔

ضلعی شرقی کے ڈسٹرکٹ میونسپل کمشنر اختر شیخ کا کہنا ہےکہ عسکری پارک ہماری ملکیت نہیں ہے جب کہ میونسپل کمشن ڈاکٹر سیف الرحمان نےبھی ملکیت سے انکار کیا ہے۔

2004 میں پرانی سبزی منڈی یہاں سے سپر ہائی وے منتقل ہوئی تھی، اس سے پہلے پارک کی جگہ کے ایم سی کی ملکیت تھی۔

عسکری پارک کی زمین کا معاہدہ 19 مئی 2005 کو ہوا تھا۔ذرائع کے مطابق پارک بنانے کیلئے زمین کے ایم سی سے 99 سال کیلئے لی گئی تھی۔

معاہدےکےمطابق پارک تجارتی مقاصد کیلئے استعمال نہیں کیاجانا تھا اور انٹری فیس بھی نہیں رکھی جاسکتی تھی لیکن اس کے باوجود پارک تجارتی مقاصد کیلئے استعمال ہورہا ہے جبکہ پارک کی زمین پر شادی ہال بھی قائم ہے۔

پارک میں ابتدائی طبی امداد کا انتظام کیوں نہیں کیا گیا؟

کچھ اور سوالات بھی ہیں، مثلاً حادثے کے بعد لوگوں کو جھولے تلے دبے افراد کو نہ صرف اپنی مدد آپ کے تحت نکالنا پڑا بلکہ انہیں اسپتال پہنچانے کیلئے ایمبولینسز اور نجی گاڑیوں کا انتظام بھی خود کرنا پڑا کیونکہ پارک میں اس حوالے سے کوئی بندوبست موجود نہیں۔

یہ سوال بھی سامنے آیا ہے کہ جھولوں کی مناسب دیکھ بھال اور انہیں خطرات سے پاک کرنے کا مکینزم کیوں نہیں بنایا گیا؟

سندھ بھر میں 3 روز کیلئے جھولے بند

چیف سیکریٹری سندھ میجر (ر) اعظم سلیمان نے صوبے بھر کے پارکوں کے جھولے تین روز کے لیے بند کرنے کے احکامات جاری کردیئے ہیں، اس دوران تکنیکی انسپیکشن کے بعد جھولوں کو کھولا جائے گا۔

پارک انتظامیہ کیخلاف مقدمہ درج

عسکری پارک میں جھولہ گرنے سے بچی کی ہلاکت اور لوگوں کے زخمی ہونے کے معاملے میں عسکری پارک انتظامیہ کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔

پولیس کے مطابق مقدمہ سرکار کی مدعیت میں پی آئی بی تھانے میں درج کیا گیا ہے اور اس میں غفلت اور قتلِ خطا کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔

مزید خبریں :