30 جولائی ، 2018
حالیہ عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف تمام صوبوں سے مناسب نمائندگی حاصل کرکے مضبوط وفاقی جماعت بن کر سامنے آئی ہے اور اس کے مقابلے میں وفاق کی علامت رہنے والی پاکستان پیپلز پارٹی سکڑتی جارہی ہے، جس کی وجہ شاید عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا نہ کرنا ہے۔ 'روٹی، کپڑا اور مکان' کے جس نعرے کی بنیاد پر عوام پیپلز پارٹی کو منتخب کرتے رہے، وہ وعدہ وفا نہ ہونے پر یہ جماعت حقیقتاً اب صرف ایک صوبے تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے۔
عمران خان نے بھی انتخابات میں کامیابی سے قبل عوام سے کئی وعدے کیے، ان کی جانب سے لگایا گیا 'تبدیلی' کا نعرہ تو خاص طور پر بہت مقبول ہوا، اس کے علاوہ ان کے وعدوں میں بے روزگاری کا خاتمہ، نئے روزگار کے مواقع پیدا کرنا، عوام سے کبھی جھوٹ نہ بولنا، پاکستان کو کسی کے سامنے جھکنے نہ دینا، بیرون ملک منتقل ہونے والے باصلاحیت پاکستانیوں کی واپسی کو یقینی بنانا، کرپشن کا خاتمہ، اپنی ذات سے احتساب کا عمل شروع کرنا، اداروں کو مضبوط کرنا، سادگی اختیار کرنا، قومی خزانے کی حفاظت کرنا اور اسے صحیح جگہ پر لگانا اور عوام میں شعور بیدار کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
یہ وہ تمام وعدے ہیں، جنہوں نے عوام کو اپنی جانب متوجہ کیا اور انہوں نے گزشتہ 20 سال سے مخصوص جماعتوں کی جاری سیاسی ڈکٹیٹرشپ اور اجارہ داری کے خلاف ووٹ دے کر تحریک انصاف کو کامیاب کیا۔ حیران کن طور پر کراچی کے عوام نے بھی باشعور ہونے کا عملی مظاہرہ کیا اور گزشتہ 20 سالہ فرسودہ سیاست کے خلاف ووٹ دیا، یہ پہلا موقع ہے کہ کراچی کے عوام نے متحدہ قومی موومنٹ کے علاوہ کسی اور جماعت کو بھرپور مینڈیٹ دیا تاکہ روشنیوں کے شہر کی روشنیاں دوبارہ بحال کی جاسکیں۔
کراچی سے ایم کیو ایم کی بری طرح شکست کے پیچھے ایک وجہ پارٹی کے اندرونی اختلافات اور دوسری بڑی وجہ ووٹرز سے کیے جانے والے وعدوں کو پورا نہ کرنا ہے، ایم کیو ایم کو بھی پیپلز پارٹی کی طرح کئی بار مواقع دیئے گئے لیکن گزشتہ 10 سال کے دوران اس نے عوام کو مایوسی کے سوا کچھ نہ دیا جس کا انتقام 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں بری طرح ناکامی کی صورت میں اسے دیکھنا پڑا۔
اگر عمران خان وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے یا وعدوں کی تکمیل میں کاسہ لیسی سے کام لیتے رہے تو ان کی جماعت کا حشر بھی پیپلز پارٹی یا اس سے بھی بدتر ہوگا
خیبرپختونخوا کے عوام نے بھی روایتی سیاستدانوں کو مسترد کرکے تحریک انصاف پر بھرپور اعتماد کیا جس کا عملی مظاہرہ چارسدہ میں عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی کی شکست، ڈیرہ اسماعیل خان میں مولانا فضل الرحمان کی دو حلقوں میں ناکامی، امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی آبائی نشست لوئر دیر سے بری طرح شکست اور قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ کی ناکامی کی صورت میں نظر آیا۔
یہ وہ سیاستدان ہیں جو ہر دور میں بالواسطہ یا بلاواسطہ حکومتوں میں رہے لیکن اس بار انہیں اسمبلی میں جانے کا موقع ہی نہیں دیا گیا، یہ وہی عوامی ردعمل ہے جس کی لپیٹ میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم بھی آئے۔ ان سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں سے متنفر عوام یہ سوچنے پر مجبور تھے کہ گزشتہ کئی سالوں اور دہائیوں سے کامیاب کرانے کے باوجود یہ لوگ اپنے حلقے کے عوام کا معیار زندگی بلند کرنے میں بری طرح ناکام رہے اور کیے گئے وعدے کبھی وفا نہ ہوئے۔
بلوچستان میں بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں، وہاں اگرچہ گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں ووٹر ٹرن آؤٹ 45 فیصد سے زائد رہا، لیکن پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اپنی نشست ہار گئے، پنجاب میں مسلم لیگ (ن) بھی کڑی آزمائش کے بعد کچھ نشستیں نکالنے میں کامیاب رہی جو 2008 اور 2013 کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔
حکومتوں میں رہ کر کارکردگی دکھانے کے اعتبار سے پیپلز پارٹی، (ن) لیگ ، ایم کیو ایم، جماعت اسلامی، جے یو آئی (ف) یا مذہبی جماعتوں کے انتخابی اتحاد متحدہ مجلس عمل کو آزمایا جاچکا اور ان کی کارکردگی کی بنیاد پر عوام نے تحریک انصاف کی صورت میں متبادل کا انتخاب کیا لیکن یہ انتخاب ہی دراصل تحریک انصاف کی قیادت کا اصل امتحان ہے۔
پہلا امتحان 2013 میں تحریک انصاف کو خیبرپختونخوا میں حکومت کی صورت میں ملا، جس میں اس نے کسی حد تک کامیاب ہونے کی کوشش کی اور اسی کوشش کی بنیاد پر اسے دوسرا موقع بھی دیا گیا، اب وفاق میں اس جماعت کا پہلا امتحان ہے جس میں کامیابی کی ایک ہی صورت ہے اور وہ ہے عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا۔
اگر عمران خان اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو انہیں تاریخ میں جدید پاکستان کا بانی تصور کیا جائے گا اور ایک عرصے تک وہ حکمرانی کے منصب پر فائز رہنے کے ساتھ ساتھ یاد رکھے جائیں گے، اگر عمران خان وعدے پورے کرنے میں ناکام رہے یا وعدوں کی تکمیل میں کاسہ لیسی سے کام لیتے رہے تو ان کی جماعت کا حشر بھی پیپلز پارٹی یا اس سے بھی بدتر ہوگا۔
پیپلز پارٹی کے پاس تو عوام سے دوبارہ ووٹ مانگنے کے لیے شاید بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کے نام ہوں لیکن عمران خان کے پاس ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا، ان کے پاس صرف اپنی کامیابی یا ناکامی کی گٹھڑی ہوگی جس کی بنیاد پر ان کے مستقبل کا فیصلہ ہوگا، اب یہ کپتان پر منحصر ہے کہ وہ جدید پاکستان کے بانی بننا چاہتے ہیں یا اپنی جماعت کو پیپلز پارٹی کی طرح محدود کرنا چاہیں گے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔