02 اگست ، 2018
اسلام آباد: ہم خیال جماعتوں کی کل جماعتی کانفرنس (اے پی سی) میں وزارت عظمیٰ کے لیے امیدوار مسلم لیگ نواز، اسپیکر کے لیے پیپلز پارٹی اور ڈپٹی اسپیکر کے لیے متحدہ مجلس عمل سے لانے کا اعلان کردیا گیا۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی پی پی رہنما شیری رحمان نے الیکشن کو دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایوان کے اندر اور باہر احتجاج کیا جائے گا، مضبوط اورمربوط اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ آج جمہوری قوتوں کا تیسرا اہم اجلاس تھا جس میں بہت سے نکات پر اتفاق کیا گیا اور فیصلہ کای گیا ہے کہ تمام جماعتیں ایوان میں جائیں گی۔
پی پی پی رہنما نے کہا کہ اس اتحاد کے ٹی او آر طے کیے جائیں گے اور ان ہی ٹی او آرز کے تحت آگے بڑھا جائے گا۔
وزیراعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے لیے ناموں کا اعلان متعلقہ جماعتیں کریں گی۔
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما میاں افتخار حسین نے کہا کہ ہم اپوزیشن کے طور پر مقابلہ نہیں کرنے جارہے بلکہ ہم حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔
انہوں نے کہا کہ دباؤ کی وجہ سے اُدھر جانے والے ادھر بھی آسکتے ہیں۔
ایم ایم اے کے رہنما لیاقت بلوچ نے کہا کہ الیکشن کمیشن اور نگراں حکومت آئین اور قانون کے تحت انتخاب نہیں کراسکی، ہارنے والوں کوپتہ نہیں انھیں کیوں ہرایا ہے۔
ن لیگ کے رہنما احسن اقبال نے کہا کہ پہلی بار ہوا الیکشن کے بعد اکثر جماعتوں نےنتائج مسترد کیے، کٹھ پتلی گٹھ جوڑ کو شکست دینے کی کوشش کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہم خیال جماعتوں نے تمام حل طلب معاملات پر اتفاق رائے کرلیا ہے۔
ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ تمام جمہوری پارٹیوں کے درمیان اتحاد ہوگیا ہے، طے ہوگیا ہے کہ تمام جماعتیں پارلیمنٹ میں جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو بتائیں گے کہ حقیقی اپوزیشن کیا ہوتی ہے۔
ذرائع نے جیو نیوز کو بتایا کہ اجلاس میں شہباز شریف کو وزیراعظم جبکہ خورشید شاہ کو اسپیکر قومی اسمبلی کے لیے نامزد کرنے پر غور کیا گیا۔
دوسری جانب تحریک انصاف نے اے پی سی پر اپنے ردعمل میں کہا گیا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو پورا حق ہے اپنی سیاست کرنے کا لیکن ہم واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ان کے جو بھی اعتراضات ہیں وہ سامنے لے کر آئیں ہم انہیں ضرور دیکھیں گے۔
ترجمان تحریک انصاف کے مطابق ہم ان کے پارلیمان میں آنے کے فیصلے کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ ایک چھوٹی سی جماعت جے یو آئی (ف) کے فیصلے کو مسترد کرکے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا پارلیمان میں آنا خوش آئند ہے اور اسی طرح جمہوریت میں اتحاد بنانا بھی ان کا جمہوری حق ہے۔
ترجمان نے کہا کہ سیاسی طور پر یا بیان بازی کیلئے تو ان کی بات ٹھیک ہے لیکن حکومت اور اسپیکر تو اسی کو ہوگا جس کے نمبر زیادہ ہوں گے اور وہ تحریک انصاف کے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حزب اختلاف کی سیاست ساکھ اور نظریات سے عاری ہے چنانچہ ہمارے لئے کوئی خطرہ نہیں۔
متحدہ اپوزیشن کی یہ اہم بیٹھک سابق اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی رہائش گاہ پر ہوئی جس میں مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ مجلس عمل اور دیگر اتحادی جماعتوں کے ارکان نے شرکت کی۔
پیپلزپارٹی کے وفد میں یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف، خورشید شاہ، شیری رحمان، قمر زمان کائرہ اور فرحت اللہ بابر شامل ہیں جب کہ شہبازشریف اور نیشنل پارٹی کے حاصل بزنجو بھی اے پی سی میں شریک تھے۔
اس کے علاوہ مولانا فضل الرحمان، سراج الحق، لیاقت بلوچ، محمود اچکزئی اور اسفند یار ولی سمیت دیگر رہنما بھی اے پی سی میں شرکت کررہے ہیں۔
اس سے قبل ہونے والی اے پی سی میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے قومی اسمبلی میں بھرپور احتجاج کا فیصلہ کیا تھا جب کہ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا تھا کہ عمران خان کو اتنے آرام سے وزیراعظم نہیں بننے دیں گے۔
یاد رہے کہ 30 جولائی کو مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور متحدہ مجلس عمل کے درمیان قومی اسمبلی میں گرینڈ اپوزیشن الائنس کے قیام پر اتفاق ہوا تھا۔