20 اگست ، 2018
ماضی کے عظیم کرکٹرعمران خان کے وزیراعظم بننے اور نئی حکومت کی تشکیل کے ساتھ ہی ایسا لگ رہا ہے کہ ملک میں ڈپارٹمنٹ کی کرکٹ ٹیمیں بند ہونے والی ہیں اور خد شہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اداروں کی ٹیمیں بند ہونے سے درجنوں کھلاڑی بے روزگار ہوجائیں گے۔
یکم ستمبر سے قائد اعظم ٹرافی کرکٹ ٹورنامنٹ شروع ہورہا ہے جس میں 8 ڈپارٹمنٹ اور 8 ریجن کی ٹیمیں حصہ لیں گی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت 40 سے زائد چھوٹے بڑے ڈپارٹمنٹس میں 1500 سے زائد کھلاڑی ملازمت کرتے ہیں۔
ڈپارٹمنٹل کرکٹ سے عالمی شہرت حاصل کرنے والے پاکستانی کرکٹرز وزیراعظم عمران خان کے سامنے ڈپارٹمنٹل کرکٹ کی حمایت میں بولنے میں بری طرح ناکام رہے بلکہ انہوں نے اس بارے میں کوشش ہی نہیں کی۔
ذمے دار ذرائع کا کہنا ہے کہ ماضی کے لیگ اسپنر عبدالقادر نے اداروں کی کرکٹ کی حمایت میں گفتگو شروع کی لیکن عمران خان اپنے کئی سال پرانے مؤقف پر قائم دکھائی دیئے۔
ماضی میں ڈپارٹمنٹل کرکٹ کی حمایت کرنے اور اس فارمیٹ سے عالمی شہرت حاصل کرنے والے کرکٹر، وزیراعظم عمران خان کے سامنے نہ بول سکے اور انہیں قائل کرنے کے بجائے انہوں نے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی۔
وزیراعظم عمران خان نے ڈپارٹمنٹل کرکٹ ختم کرنے کا عندیہ دے دیا ہے، وہ ریجنل کرکٹ کے فروغ کا ارادہ رکھتے ہیں ور ڈپارٹمنٹل کرکٹ کو تباہی کی جڑ سمجھتے ہیں۔
وزیراعظم سے ملاقات کرنے والوں میں وسیم اکرم، جاوید میانداد، وقار یونس معین خان، رمیز راجا، مشتاق احمد، انضمام الحق، مدثر نذر، عبدالقادر کے علاوہ سابق ٹیسٹ فاسٹ بولر اور عمران خان کے قریبی دوست ذاکر خان بھی موجود تھے۔
وسیم اکرم اور معین خان آج بھی پی آئی اے سے وابستہ ہیں۔ جاوید میانداد طویل عرصے حبیب بینک سے وابستہ رہے اور ماضی میں وہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ کی حمایت کرتے تھے۔
رمیزراجا پی این ایس سی اور الائیڈ بینک کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ ذاکر خان زرعی ترقیاتی بینک سے کھیلتے تھے۔ وقار یونس،انضمام الحق،مشتاق احمد اور مدثر نذر یوبی ایل کی جانب سے کھیلتے تھے۔
عبدالقادر حبیب بینک سے کھیلتے تھے اور اس وقت زرعی بینک کے کوچ ہیں۔ عینی شاہدین کے مطابق انہوں نے عمران کے سامنے اپنا مؤقف دبنگ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی لیکن حمایت نہ ملنے سے وہ مایوس ہوگئے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق لیگ اسپنر عبدالقادر نے تجویز دی کہ ڈپارٹمنٹ کی کرکٹ ٹیموں کو ختم نہ کیا جائے۔ عمران خان نے اپنے مؤقف کو واضح کیا کہ وہ ڈپارٹمنٹل کرکٹ کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے تاہم کوشش کریں گے کھلاڑیوں کی ملازمیتیں ختم نہ ہوں، ریجنل کرکٹ ہی اصل کرکٹ ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے کرکٹ سسٹم میں 8 ریجن کی ٹیمیں فرسٹ کلاس میں شرکت کریں گی جبکہ 8 ریجن کی ٹیمیں گریڈ ٹو میں حصہ لیں گی۔ ہر سال ایک ریجنل ٹیم کی ترقی اور ایک کی تنزلی ہوگی۔
عمران خان جب پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے اس وقت وہ علاقائی کرکٹ کے حامی تھے اور کہتے تھے کہ شہروں کی ٹیموں میں زیادہ مقابلہ دیکھنے میں آتا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اس سال ریجنل کرکٹرز کو قائد اعظم ٹرافی میں بھاری میچ فیس دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ قائداعظم ٹرافی کی میچ فیس 25 ہزار سے بڑھا کر 50 ہزار روپے کر دی گئی ہے جب کہ ون ڈے ٹورنامنٹ کی فیس 20 ہزار سے بڑھا کر 25 ہزار روپے کردی گئی ہے۔
ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کی فیس 24 سے بڑھا کر 30 ہزار روپے فی میچ کر دی گئی ہے۔ پاکستان کپ میں شرکت کرنے والے کھلاڑیوں کا فی میچ معاوضہ 30 سے بڑھا کر 35 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔
قائد اعظم ٹرافی کے ساتھ ون ڈے ٹورنامنٹ کے میچ بھی ہوں گے، اگر کوئی ریجنل کھلاڑی دونوں میچ کھیلے گا تو اسے ڈیلی الاؤنس ملا کر 91 ہزار روپے ملیں گے۔
چند ہفتے قبل یو بی ایل نے اپنی کرکٹ ٹیم کو بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یوبی ایل سے فارغ ہونے والے کھلاڑیوں کو نیشنل بینک، اسٹیٹ بینک اور حبیب بینک نے ایک سے دو لاکھ روپے میں ملازمت دی ہے۔
سابق ٹیسٹ کرکٹر اقبال قاسم نے حال ہی میں پی سی بی میں ڈائریکٹر کی ملازمت کو ٹھکرا کر نیشنل بینک میں ملازمت کی ہے جبکہ پی سی بی کے کوچ اور سابق ٹیسٹ فاسٹ بولر سلیم جعفر نے بورڈ کی ملازمت چھوڑ کر حبیب بینک کو ہیڈ کوچ کی حیثیت سے جوائن کر لیا ہے۔
اس وقت کئی بڑے موجودہ اور سابق کرکٹرز مختلف اداروں سے وابستہ ہیں لیکن اکثر کھلاڑی ڈپارٹمنٹ میں کنٹریکٹ پر کام کررہے ہیں۔