نیب ریفرنسز: نواز شریف کے وکیل اور واجد ضیا کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ


اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف دو نیب ریفرنسز کی سماعت کے دوران ان کے وکیل خواجہ حارث اور نیب کے گواہ واجد کے ضیا کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔

احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک سابق وزیراعظم کے خلاف دائر العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس کی سماعت کر رہے ہیں۔

سابق وزیراعظم کو انتہائی سخت سیکیورٹی میں اڈیالہ جیل سے احتساب عدالت لایا گیا جس کے بعد وہ کمرہ عدالت میں آج کی کارروائی دیکھتے رہے۔

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے سماعت کے دوران کہا کہ واجد ضیا بار بار بیان بدل رہے ہیں، انہیں کہیں کہ ایک بار سوچ کر جواب دیں جس پر فاضل جج نے واجد ضیا کو ہدایت کی کہ پہلے سوال آنے دیں پھر جواب دیں۔

واجد ضیا نے کہا کہ حمد بن جاسم کو خط میں تصدیق اور انویسٹی گیشن میں فرق کی وضاحت نہیں کی جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ اب میرا اگلا سوال آیا تو آپ مان گئے، یہ ہمیں بے وقوف بنا رہے ہیں، ان کے بیانات میں تضاد آرہا ہے۔

اس پر واضد ضیا نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ حمد بن جاسم سے منسوب خط کی تاریخ غلط درج ہے، یہ ایماندارانہ غلطی ہے جو ہوجاتی ہے جس پر نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ آپ کی بددیانتی کی وجہ سے یہ سوالات ہو رہے ہیں۔

خواجہ حارث کی جانب سے بددیانت کہنے پر نیب پراسیکیوٹر نے اعتراض اٹھایا اور کہا کہ یہ غلط بات ہے، گواہ کو بددیانت نا کہیں جس پر نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ 'میں واجد ضیا کو سوری کہہ کر یہ بات واپس لیتا ہوں'۔

اس موقع پر واجد ضیا نے کہا 'اب میں آپ کو کیا کہوں آپ کا پروفیشن ہی ایسا ہے، آپ کوئی بات کہیں یا پھر نہ کہیں' جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ 'آپ کو سوری قبول نہیں تو میں اپنی بات پر قائم ہوں'۔

واجد ضیا نے کہا میں معذرت چاہتا ہوں جس پر خواجہ حارث نے کہا میں بھی معافی چاہتا ہوں۔

حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والا شخص کا پتہ لگا لیا، واجد ضیا

العزیزیہ ریفرنس میں نامزد ملزم حسین نواز سے متعلق واجد ضیا نے کہا کہ 'حسین نواز کی شکایت پر میں نے الگ سے تحقیقات کا حکم جاری کیا جس کے دوران تصویر لیک ہوئی اور تصویر لیک کرنے والے کا پتہ لگالیا گیا'۔

واجد ضیا نے کہا کہ جے آئی ٹی کو تصویر لیک کرنے کا نام پبلک کرنے کا اختیار نہیں تھا اور سپریم کورٹ نے ہدایت تھی کہ تصویر لیک کرنے والے کا نام صرف اٹارنی جنرل کو بتانا ہے، یہ اٹارنی جنرل آفس کا استحقاق ہے کہ وہ اس شخص کا نام بتائیں یا نہیں۔

واجد ضیا کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا ایسا تحریری حکم نامہ نہیں جس میں تصویر لیک کرنے کے ذمہ دار کا نام بتانے سے روکا گیا ہو جس پر خواجہ حارث نے سوال کیا سپریم کورٹ کا ایسا حکم نہیں تو کیا رکاوٹ ہے کہ آپ نام نہیں بتانا چاہتے؟ جس پر واجد ضیا نے کہا تصویر لیک کرنے والے کی سیکیورٹی کا معاملہ ہے۔

جملوں کے تبادلے کے دوران واجد ضیا نے خواجہ حارث کو کہا کہ مجھے آپ کا سوال سمجھ نہیں آیا جس پر نواز شریف کے وکیل نے کہا کہ کمرہ عدالت میں پوچھ کر دیکھ لیں، یہاں آپ کے سوا سب کو میرا سوال سمجھ آیا ہوگا جس پر واجد ضیا نے کہا کہ سوال مجھ سے ہے اس لیے مجھے سمجھ آنا ضروری ہے۔ 

یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے بھی احتساب عدالت کو دونوں ریفرنسز نمٹانے کے لیے مزید 6 ہفتوں کا وقت دیا تھا۔

مزید خبریں :