محمود خان زندہ باد!

— عمران خان اور محمود خان

جب پانچ برس قبل خیبر پختون خوا میں تحریکِ انصاف برسراقتدار آئی تو اس نے صوبے کو اچھی حکمرانی (گڈ گورننس) کی لیبارٹری بنانے کا عزم کیا اور اب جبکہ تحریکِ انصاف مرکز میں بھی برسرِاقتدار ہے تو اسے موقع ملا ہے کہ خیبر پختون خوا کی لیب میں گڈ گورننس کے جو تجربات کامیاب ہوئے انہیں وفاقی سطح پر بھی لاگو کیا جائے۔

مثلاً بلین ٹری سونامی اب 10 بلین ٹری سونامی ہے۔ اسپتالوں کی حالت بہتر بنانے اور طبی عملے کو مستعد رکھنے کا جو کامیاب تجربہ کے پی لیب میں ہوا اب وہ تجربہ انصاف صحت کارڈ کے ذریعے باقی ملک میں دھرایا جائے گا۔ تعلیمی نظام میں جو اصلاحات صوبائی سطح پر ہوئیں اور اساتذہ کی حاضری کو جس طرح بہتر بنایا گیا اور اس کے نتیجے میں ہزاروں والدین نے اپنے بچوں کو مہنگے نجی اسکولوں سے نکال کر جس طرح سرکاری اسکولوں میں داخل کروایا۔ ویسا ہی منظر اگلے برس باقی پاکستان میں بھی نظر آئے گا۔

کے پی میں مذہبی مدارس کے نصاب کو اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور بنیاد پرستی سے دور رکھنے کے لئے سرکاری مالی اعانت کی مقدار پچھلے پانچ برس میں دوگنی کر دی گئی۔توقع ہے کہ مرکز میں پی ٹی آئی حکومت کی پہلی سالگرہ تک اس ماڈل پالیسی کا دائرہ ملک گیر ہو جائے گا۔

پی ٹی آئی نے انتخابی مہم میں پولیس اور نوکر شاہی کو خود مختار اور بااختیار بنانے کے لئے خیبر پختون خواہ پولیس میں اصلاحات اور کارکردگی کا ماڈل ووٹروں کے آگے رکھا ۔ووٹروں نے اس ماڈل کو سراہا۔ لیکن جب اس ماڈل کو پنجاب میں لاگو کرنے کی کوشش ہوئی تو حاسدوں نے اسے ناکام بنانے کی کوشش بھی تیز کر دی۔

مجھے اس کا پہلا اندازہ پاک پتن کے نااہل ڈی پی او رضوان گوندل کے تبادلے کے وقت میڈیا کی چیخ و پکار سے ہی ہو گیا تھا۔

اس کے بعد جب پی ٹی آئی پنجاب حکومت نے خیبر پختون خوا پولیس ماڈل کی روشنی میں ضمنی انتخابات سے زرا پہلے آئی جی طاہر خان کو بدلنے کی کوشش کی تو اسے بھی الیکشن کمیشن نے جانے کیا سوچ کر ناکام بنادیا اور اب آئی جی اسلام آباد جان محمد کی کارکردگی سے نامطمئن ہو کر ہٹانے کی کوشش کی گئی تو اس پر بھی ہا ہا کار مچ گئی۔

میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ اگر ایک منتخب وزیرِ اعظم گڈ گورننس کی خاطر ایک معمولی آئی جی کو بھی فون پر تبدیل کرنے کے احکامات جاری نہیں کر سکتا تو پھر اس کے وزیرِ اعظم بننے کا کیا فائدہ۔ اگر وہ اتنا ہی بے اختیار ہے تو پھر نیا پاکستان اگلے پانچ برس چھور پانچ سو برس میں بھی بن جائے تو بڑی بات ہے۔

اس تناظر میں خیبر پختون خوا کی گڈ گورننس لیب میں ایک اور پائلٹ پروجیکٹ شروع کیا گیا ہے۔اس کا مقصد سماجی انارکی و بے راہروی کو لگام دینا ہے۔مجھے صوبے کے نومنتخب وزیرِ اعلی محمود خان کے اس حکم سے بے حد خوشی ہے کہ آئندہ خواتین کے تعلیمی اداروں میں مردوں کے بطور مہمانِ خصوصی مدعو نہ کیا جائے۔ بس سرکردہ خواتین ہی گرلز تعلیمی اداروں میں مہمانِ خصوصی ہوں گی۔

اس اصلاحی فیصلے کا مقصد یہ ہے کہ ہم بحثیت مسلمان اور پاکستانی اپنی روایات و اقدار کا تحفظ کرتے ہوئے اپنی بچیوں کو محفوظ ماحول میں تعلیم اور غیر تعلیمی سرگرمیوں کے لئے بھر پور مواقع فراہم کریں تاکہ وہ اپنا تشخص برقرار رکھتے ہوئے زندگی کے عملی چیلنج سے بااعتماد انداز میں مردوں کے شانہ بشانہ نبرد آزما ہو سکیں۔

اس حکم کا محرک یہ ہے کہ مرد مہمان بچیوں کو گھور گھور کے دیکھتے ہیں اور پھر یہ تصاویر وائرل ہو جاتی ہیں جن کا معاشرے پر اچھا اثر نہیں پڑتا۔اسی لئے نئ پالیسی کے تحت ان تقریبات کی فوٹو گرافی اور میڈیا کوریج کی بھی اجازت نہ ہوگی ۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔

پی ٹی آئی دشمن میڈیا کے برعکس میں پوری طرح وزیرِاعلی محمود خان کے جذبے کی قدر کرتا رہوں گا۔ میری خواہش ہے کہ محمود خان نے جو کام شروع کیا ہے اسے اب منظقی انداز میں آگے بڑھایا جائے۔ اس وقت خیبر پختون خوا کا بالعموم اور باقی ملک کا سب سے سنگین مسئلہ یہی ہے کہ کس طرح ہم اپنی نئی پود بالخصوص بچیوں کو مردوں کا نگاہوں سے پاک ایک محفوظ تعلیمی ماحول فراہم کریں۔

میری خواہش ہے کہ اگلے چند روز میں خیبر پختون خوا میں سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔ سوائے عمارت کے باہر بیٹھے مرد محافظوں کے اندر جو بھی مردانہ دفتری و انتظامی سٹاف ہے اس کا تبادلہ فوراً کہیں اور کیا جائے ۔بچیوں کو گھر سے اسکول جو ٹرانسپورٹ لاتی لے جاتی ہے اس کا عملہ بھی خواتین پر مشتمل ہو ۔اسکولوں میں صرف نامور تاریخی خواتین کی تصاویر لگائی جائیں تاکہ بچیوں کا رول ماڈل کوئی سرسید ، کوئی جناح یا کوئی بھٹو نہ بن جائے۔اس کے لئے اگر علیحدہ تعلیمی نصاب بھی متعارف کروانا پڑے تو کوئی حرج نہیں۔

خیبر پختون خوا حکومت کا یہ فرض بھی ہے کہ اپنی لڑکیوں اور خواتین کو صرف انہی بین الصوبائی ٹورنامنٹس، مباحثوں، مقابلوں اور اداروں میں جانے کی اجازت دے جہاں یہ اطمینان ہو کہ مرد موجود نہیں ہوں گے۔ اس پائلٹ پروجیکٹ کی کامیابی کی صورت میں وفاق کے پاس اسے نہ اپنانے کا کوئی بہانہ نہ ہوگا۔

یقیناً ہر وقت کچھ نہ کچھ برا سوچنے والے سوچ رہے ہوں گے کہ پی ٹی آئی کے لمبے لمبے دھرنوں اور جلسوں میں خواتین کی مردوں کے شانہ بشانہ بھرپور شرکت کی ویڈیوز کا کیا ہوگا؟

ایسے افلاطونوں کے لئے عرض ہے کہ حزبِ اختلاف کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں اور جب حزبِ اختلاف حزبِ اقتدار بن جاتی ہے تو پھر اسے سنجیدہ ، زمہ دار اور تعمیری رویہ اپنانا پڑتا ہے۔اقتدار ایک امانت ہے اور خیبر پختون خوا کے وزیرِ اعلی ایک سنجیدہ اور امانت دار شخصیت ہیں۔جو مسئلہ پرویز خٹک سے پانچ سال میں نہ حل ہو سکا محمود خان نے ایک ماہ میں حل کر دکھایا۔ جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔نئے پاکستان کے نئے تقاضے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔