15 نومبر ، 2018
پاکستان کا تجارتی حب کراچی اِن دنوں ایک نئی موسمیاتی تبدیلی سے گزرہا ہے اور شہر کی فضا میں زہریلے ذرات 'پرٹیکیولیٹ میٹر' کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے جو سمندری ہوائیں رک جانے کے باعث شہریوں کو متاثر کر رہے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ کراچی کی زہریلی فضا کو محکمہ موسمیات اب تک محض 'اسموک' قرار دے رہا ہے، تاہم پاکستان ایئر کوالٹی انیشی ایٹو کے سربراہ عابد عمر کہتے ہیں کہ اسے 'اسموک' کہا جائے یا 'اسموگ' کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ دراصل فضائی آلودگی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جو انسانی سرگرمیاں ہماری فضا کو زہریلا بنارہی ہیں، وہ اس آلودگی کے ذریعے ہماری سانسوں میں اتر رہی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے منظور شدہ فضائی معیار کے مطابق فضا میں پرٹیکیولیٹ میٹر 10 سے کم ہوں تو فضا کا معیار اچھا ہوتا ہے، لیکن کراچی میں اب موسم سرما کے آغاز میں فضا میں اس زہریلے مواد کی تعداد 60 سے 73 تک پہنچ گئی ہے، جو انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
واضح رہے کہ کراچی میں کوئی بھی مہینہ ایسا نہیں ہوتا جب فضا کا معیار اچھا ہو اور پرٹیکیولیٹ میٹرز موجود نہ ہوں، تاہم سمندری ہوائیں چلنے کے باعث ان کا اندازہ نہیں ہوپاتا۔
عابد عمر تین سال سے کراچی سمیت لاہور کے فضائی معیار کو مانیٹر کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ پرٹیکیولیٹ میٹرز میں بیکٹریا، وائرس،خطرناک گیسیں، اریسول اور سولڈ میٹلز شامل ہوتی ہیں اور یہ انسانی بال سے بھی 30 گنا چھوٹے ہوتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ فضائی آلودگی پھیپھڑوں، دل کے امراض اور کینسر جیسی بیماریاں پھیلا رہی ہے۔
میڈیکل جنرل 'دی لانسٹ' میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق دنیا میں جنگوں سے بھی زائد اموات آلودگی کے باعث ہوتی ہیں۔ 2015 میں 90 لاکھ افراد آلودگی کے باعث جان گنوا بیٹھے جبکہ دنیا میں مرنے والے ہر 6 میں سے ایک شخص کی موت آلودگی کے ہاتھ ہوا۔
عابد عمر نے زور دیا ہے کہ کراچی کی فضا کا معیار روزانہ کی بنیاد پر مانیٹر کرنے ساتھ ایسے عناصر کی روک تھام کی اشد ضرورت ہے جو فضائی آلودگی بڑھانے کا باٰعث بن رہے ہیں۔