جعلی اکاؤنٹس کیس: بلاول کو بھیجے گئے سوالنامے کی تفصیلات سامنے آگئیں

بلاول بھٹوزرداری کو تفصیلی سوال نامہ بھجوا دیا گیا ہے جس میں ان سے زرداری گروپ کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے 20 کے قریب سوالات پوچھے گئے ہیں، ذرائع— فوٹو: فائل

اسلام آباد: مبینہ جعلی اکاؤنٹس کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں قائم ہونے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی جانب سے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کو بھیجے گئے سوال نامے کی تفصیلات سامنے آگئیں۔

ذرائع کے مطابق بلاول بھٹوزرداری کو تفصیلی سوال نامہ بھجوا دیا گیا ہے جس میں بلاول سے زرداری گروپ کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے 20 کے قریب سوالات پوچھے گئے ہیں۔

ذرائع کے مطابق سوال نامے میں بلاول سے پوچھا گیا ہے کہ زرداری گروپ کے کاروباری معاملات کون دیکھتا ہے؟ ڈائریکٹر کی حیثیت سے آپ نے کب ذمہ داریاں سنبھالیں؟، زرداری گروپ کا اومنی گروپ سے کاروبارِی تعلق کی نوعیت کیا ہے؟

ذرائع کے مطابق بلاول سے لکی انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے زردارِی گروپ میں جمع کیے گئے پیسوں کا پوچھا گیا ہے جبکہ عمیر ایسوسی ایٹس، اوشیئن انٹرپرائزز اور ڈریم ٹریڈنگ اینڈ کمپنی سے متعلق سوالات بھی شامل ہیں۔

ذرائع کے مطابق سوال نامے میں پوچھا گیا کہ 'عمیر ایسوسی ایٹس اکائونٹس سے پیسوں کی 34 منتقلیاں کیسے ہوئی ہیں؟ مکان نمبرڈی 30 بلاک۔ 3 کلفٹن کا 15 لاکھ 40 ہزار روپے کا پانی کا بل تھا، 20 اپریل 2015 کو یہ بل ایک نجی بینک میں میسرز رائل انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے کیسے جمع کرایا گیا؟ بلاول ہاؤس کو کھانا فراہم کرنے والے ریسٹورنٹ کو لاجسٹک ٹریڈنگ کے اکاؤنٹ سے 44 لاکھ 40 ہزارروپے کیسے ادا کئے گئے؟

پیپلز پارٹی کے رہنما فاروق ایچ نائیک نے بلاول بھٹو کیلئے جے آئی ٹی کا سوال نامہ وصول کرنے کی تصدیق کردی ہے۔ جیو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ جمعہ یا ہفتہ کے روز تحریری جواب دوں گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی نے بلاول بھٹو کو 22 نومبر کواس حوالے سے سمن بھجوایا تھا، سمن میں بلاول بھٹو کو 28 نومبر کو طلب کیا گیا تھا، لیکن بلاول بھٹو جے آئی ٹی کے سمن پر پیش نہیں ہوئے تھے۔

تاہم 30 نومبر کو بلاول بھٹو زرداری کی قانونی ٹیم نے جعلی بینک اکاؤنٹس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کو اپنے تحریری جواب میں بتایا تھا ہے کہ ان کے موکل کو زرداری گروپ پرائیویٹ لمیٹڈ کی لین دین کے حوالے سے علم نہیں۔

ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے جے آئی ٹی کو دیئے گئے تحریری جواب میں کہا گیا تھا کہ ان کے والد آصف علی زرداری تمام کاروباری معاملات دیکھ رہے تھے۔

بلاول نے اپنے جواب میں دعویٰ کیا کہ اگرچہ یہ درست ہے کہ وہ زرداری گروپ پرائیویٹ لمیٹڈ کے ڈائریکٹرز میں سے ہیں، تاہم انہوں نے کاروباری معاملات میں حصہ نہیں لیا۔ تمام معاملات ان کے والد آصف علی زرداری دیکھتے تھے لہٰذا جے آئی ٹی کو جعلی بینک اکاؤنٹس کیس سے متعلق اُن سے ہی پوچھ گچھ کرنی چاہیے۔

جعلی بینک اکاؤنٹس کیس

واضح رہے کہ ایف آئی اے جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کی تحقیقات کررہی ہے اور اس سلسلے میں اومنی گروپ کے سربراہ اور آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی انور مجید، ان کے صاحبزادے عبدالغنی مجید اور نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی ایف آئی اے کی حراست میں ہیں۔

اسی کیس میں تشکیل دی گئی جے آئی ٹی میں سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور پیش ہوچکے ہیں۔

تحقیقات میں تیزی کے بعد سے اب تک کئی جعلی اکاؤنٹس سامنے آچکے ہیں جن میں فالودے والے اور رکشے والے کے اکاؤنٹس سے بھی کروڑوں روپے نکل چکے ہیں۔

واضح رہے کہ ملک میں بڑے بزنس گروپ ٹیکس بچانے کے لیے ایسے اکاؤنٹس کھولتے ہیں، جنہیں 'ٹریڈ اکاؤنٹس' کہاجاتا ہے اور جس کے نام پر یہ اکاؤنٹ کھولا جاتا ہے، اسے رقم بھی دی جاتی ہے۔ اس طرح کے اکاؤنٹس صرف پاکستان میں ہی کھولے جاتے ہیں اور دنیا کے دیگر حصوں میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں۔

جعلی بینک اکاؤنٹس کیس پہلی مرتبہ کب سامنے آیا؟

ایف آئی اے حکام کے مطابق جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈنگ کیس 2015 میں پہلی دفعہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے اٹھایا گیا تھا، جب اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایف آئی اے کو مشکوک ترسیلات کی رپورٹ یعنی ایس ٹی آرز بھیجی گئیں۔

حکام کے دعوے کے مطابق بینک منیجرز نے جعلی اکاؤنٹس انتظامیہ اور انتظامیہ نے اومنی گروپ کے کہنے پر کھولے اور یہ تمام اکاؤنٹس 2013 سے 2015 کے دوران 6 سے 10 مہینوں کے لیے کھولے گئے جن کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی، دستیاب دستاویزات کے مطابق منی لانڈرنگ کی رقم 35ارب روپے ہے۔

مشکوک ترسیلات کی رپورٹ پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے حکم پر انکوائری ہوئی اور مارچ 2015 میں چار بینک اکاؤنٹس مشکوک ترسیلات میں ملوث پائے گئے۔

ایف آئی اے حکام کے دعوے کے مطابق تمام بینک اکاؤنٹس اومنی گروپ کے پائے گئے، انکوائری میں مقدمہ درج کرنے کی سفارش ہوئی تاہم مبینہ طور پر دباؤ کے باعث اس وقت کوئی مقدمہ نہ ہوا بلکہ انکوائری بھی روک دی گئی۔

دسمبر 2017 میں ایک بار پھر اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے ایس ٹی آرز بھیجی گئیں، اس رپورٹ میں مشکوک ترسیلات جن اکاؤنٹس سے ہوئی، ان کی تعداد 29 تھی جن میں سمٹ بینک کے 16، سندھ بینک کے 8 اور یو بی ایل کے 5 اکاؤنٹس شامل ہیں۔ ان 29 اکاؤنٹس میں 2015 میں بھیجی گئی ایس ٹی آرز والے چار اکاؤنٹس بھی شامل تھے۔

21 جنوری 2018 کو ایک بار پھر انکوائری کا آغاز کیا گیا۔ ابتداء میں صرف بینک ملازمین سے پوچھ گچھ کی گئی اور انکوائری کے بعد زین ملک، اسلم مسعود، عارف خان، حسین لوائی، ناصر لوتھا، طحٰہ رضا، انور مجید اور عبدالغنی مجید سمیت دیگر کو نوٹس جاری کیے گئے جبکہ ان کا نام اسٹاپ لسٹ میں بھی ڈالا گیا۔

ایف آئی اے حکام کے مطابق تمام بینکوں سے ریکارڈ طلب کیے گئے لیکن انہیں ریکارڈ نہیں دیا گیا، سمٹ بینک نے صرف ایک اکاؤنٹ اے ون انٹرنیشنل کا ریکارڈ فراہم کیا جس پر مقدمہ درج کیا گیا۔

حکام نے مزید بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے سمٹ بنک کو ایکوٹی جمع کروانے کا نوٹس دیا گیا، سمٹ بینک کے چیئرمین ناصر لوتھا کے اکاؤنٹس میں 7 ارب روپے بھیجے گئے، یہ رقم اے ون انٹرنیشنل کے اکاؤنٹ سے ناصر لوتھا کے اکاونٹ میں بھیجی گئی تھی۔

ناصر لوتھا نے یہ رقم ایکوٹی کے طور پر اسٹیٹ بینک میں جمع کروائی، ان 29 اکاؤنٹس میں 2 سے 3 کمپنیاں اور کچھ شخصیات رقم جمع کرواتی رہیں۔

حکام نے بتایا کہ تحقیقات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ جو رقم جمع کروائی گئی وہ ناجائز ذرائع سے حاصل کی گئی، ان تمام تحقیقات کے بعد جعلی اکاؤنٹس اور منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

جس کے بعد اومنی گروپ کے مالک انور مجید اور سمٹ بینک انتظامیہ پر جعلی اکاؤنٹس اور منی لاڈرنگ کا مقدمہ کیا گیا جبکہ دیگر افراد کو منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت اسی مقدمے میں شامل کیا گیا۔

مزید خبریں :