بلاگ
Time 08 فروری ، 2019

اصل سے جعلی پولیس مقابلوں کا سفر

میں نے اپنی صحافتی زندگی میں چند حقیقی پولیس مقابلے خود ہوتے دیکھے اور اس کو رپورٹ بھی کیا۔ لہذا میرے لیے یہ جاننا مشکل نہیں کہ ساہیوال کا واقعہ ، نہ صرف "جعلی پولیس مقابلہ " تھا بلکہ نہتے انسانوں کا " بہیمانہ قتل" ہے ۔ یہ نہ صرف اس جگہ موجود سیکیورٹی اہلکاروں کی ناکامی اور نا اہلی تھی بلکہ ان انٹیلی جنس اہلکاروں کی بھی جنہوں نے گمراہ کن رپورٹ دی تھی۔

مجھے اس موقع پر دو حقیقی پولیس مقابلے یاد آرہے ہیں جنہیں میں نے دیکھا تھا۔ ان میں سے ایک 80 کی دہائی کے اختتام یا 90 کے اوائل میں ہوا تھا جبکہ دوسرا سنہ ء 2002 کی 11 ستمبر کو کراچی ڈیفنس فیز 2 میں ہوا ۔ جس میں القائدہ کے چوتھے نمبر کے اہم ترین دہشت گرد رمزی بن ال شیبہ کو کئی گھنٹے تک جاری رہنے والی فائرنگ اور دستی بم دھماکوں کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ سیکیورٹی اداروں نے دعویٰ کیا تھا کہ رمزی بن ال شیبہ امریکا میں 11 ستمبر 2001 میں ہوئی دہشت گردی کی سب سے بڑی واردات کا پہلا سال مکمل ہونے پر کراچی میں امریکی قونصل خانے کو دھماکے سے اڑانے کی تیاری کر رہا تھا۔

دیگر واقعات میں کراچی ائیر پورٹ پر ہونے والے دو دہشت گرد کارروائیوں میں ہونے والے مقابلے شامل ہیں۔ ان میں سے ایک چند برس پہلے ہو جس میں دہشت گردوں نے کراچی کے حج ٹرمینل سے ائیر پورٹ میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ دہشت گردوں کا سامنا ڈیوٹی پر موجود ائیرپورٹ سیکیورٹی فوس،  اے ایس ایف، کے جانباز اہلکاروں سے ہوا جن میں سے چند کو انہوں نے فائرنگ کر کے شہید کر دیا لیکن دیگر اہلکاروں نے ان وطن دشمنوں کا بے جگری سے مقابلہ کر کے ایک مخصوص علاقے تک محدود کر دیا۔ ان دہشت گردوں کو بعد میں پاکستان آرمی کے کمانڈوز نے عمارت میں گھس کر مار ڈالا۔

دوسر واقعہ 80 کی دہائی کے آخر یا 90 کے اوائل میں اسی ٹرمینل پر پیش آیا تھا جب امریکی فضائی کمپنی "پین-ایم" کے جہاز کو اغوا کر لیا گیا تھا۔ اس زمانے میں یہ ٹرمینل ہی کراچی کا مسافر ائیر پورٹ تھا ۔ یہ دونوں واقعات مختلف نوعیت کے ہیں لیکن ان میں جو قدر مشترک ہے وہ ہے انٹیلی جنس اور سیکیورٹی اداروں کی ان کی بروقت معلومات اور کارروائیاں روکنے میں بری مکمل ناکامی ۔

میں نے پہلا حقیقی پولیس مقابلہ اسی زمانے میں ہوتے دیکھا جس میں امان اللہ مبارکی کی قیادت میں ایرانی بلوچ کے ایک گینگ سے سیکیورٹی اداروں کا براہ راست مقابلہ ہوا۔ وہ پرنٹ میڈیا اور سرکاری ریڈیو اور ٹیلیویژن کا دور تھا۔ وہ ایک طویل مقابلہ تھا جو پانچ سے چھ گھنٹے تک جاری رہا۔ اس حقیقی پولیس مقابلے میں ہم نے دیکھا کہ کس طرح اسلحے کو زور پر یرغمال خاندان کو کامیابی کے ساتھ بچایا جاتا ہے۔

میں اپنے شام کے اخبار کے لیے کام کر رہا تھا ، ہم ہر صبح 8:30 پر دفتر پہنچتے تھے کیوں کہ اخبار کی فائنل کاپی 10:30 یا زیادہ سے زیادہ 11 بجے تک اشاعت کے لیے بھیجنا ہوتی تھی۔ اس روز بھی فائنل کاپی اشاعت کے لیے بھیجی جانے کو تیار تھی کہ مجھے اپنے قابل اعتماد ذریعہ سے فون کال موصول ہوئی کہ پولیس نے ناظم آباد کے علاقے میں ایک گھر کو گھیر ے میں لیا ہواہے۔ اطلاع ملنے پر میں نے علاقے پولیس سے رابطہ کیا ہے اور اس بات کی تصدیق کی کہ کیا علاقے کو محاصرے میں لے کر بند کر دیا گیا ہے؟ اور پولیس سے تصدیق ہونے کے بعد میں نے ابتدائی خبر دی اور ایک فوٹو گرافر کو ساتھ لے کر واقعے کی جگہ پر روانہ ہو نے کی تیاری کرنے لگا ۔

میں نے اپنے ساتھی انیس ہمدانی سے اخبار کے ایڈیٹر جی ایم منصوری سے کاپی کو اشاعت کے لیے بھیجنے میں 30 منٹ تاخیر کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا کچھ "اہم" ہونے والا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ " جو میرے ذرائع نے مجھے بتایا ہے اس سے تو ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے۔" پھر میں تیزی سے وقوعہ کے جانب روانہ ہو گیا۔

ہمارے وہاں پہنچنے پر پولیس اہلکاروں نے ہمیں روکا اور انتہائی محتاط رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے بتایا کہ ملزمان نہ صر ف فائرنگ کر رہے ہیں بلکہ دستی بموں سے بھی حملے کر رہے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ ایک چھوٹے سے مکان سے پولیس پر مسلسل فائرنگ کی جارہی تھی۔ کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ آیا یہ گھر دہشت گردوں کا ہے یا انہوں نے وہاں کے مکین کو یرغمال بنایا ہوا ہے ۔ پولیس ٹیم کی قیادت ایک نوجوان افسر کیپٹن ریٹائرڈ محمد جمیل کررہا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ میں نے جوانوں کو انتہائی محتاط رہنے کی ہدایت کی ہے کیوں کہ ملزمان مکان میں مقیم عورتوں اور بچوں کو اپنے بچاؤ کے لیے "ڈھال" کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ لہٰذا پولیس نے برا ہ راست دھاوہ بول کر امان اللہ مبارکی اور اس کے گینگ کو مارنے کے بجائے " ا نتظار کر کے دیکھنے "کی حکمت عملی کی پالیسی پر عمل پیرا تھی۔

بعد ازاں پولیس نے امان اللہ اور اس کے ساتھیوں کو بغیر کسی جانی نقصان کے مار ڈالا اور جو تصویر شہہ سرخی بنی وہ پولیس افسر جمیل اور اس کے ٹیم کے ساتھیوں کی آپریشن کی کامیابی پر خوشی میں کی جانے والی ہوائی فائرنگ کی تھی۔

10 ستمبر 2002:

 کراچی میں " ہائی الرٹ " رہنے کا انتباہ ۔ خفیہ اداروں کی رپورٹس کے مطابق القائدہ دہشت گرد کراچی میں امریکی تنصیبات پر ممکنہ دہشت گردی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں انتباہ ظاہر کیا گیا کہ 11 ستمبر کو امریکی "ٹوئن ٹاور" پر دہشت گرد کارروائی میں اسے منہدم کرنے اور ہزاروں افراد کے لقمہ اجل بننے کی یاد منانے کے موقع پر القائدہ عناصر امریکی مفادات کو نشانہ بنانا چاہتے ہیں۔ میں اس زمانے میں فرانسیسی خبر رساں ادارے "اے ایف پی" میں کراچی کا بیورو چیف تھا ۔ 11 ستمبر 2002 کو دن قریب 12 بجے اطلاع ملی کہ ڈیفنس فیز 2 کے رہائشی علاقے میں پولیس مقابلہ ہو رہا ہے۔ 

 ابتدا میں میرا خیال تھا کہ دیگر پولیس مقابلوں کی طرح یہ بھی ایک عام سی خبر ہوگی لیکن چونکہ کراچی میں "ہائی الرٹ" تھا لہٰذا میں نے معروف پولیس افسر میر زبیر سے رابطہ کیا جو بڑے اور اہم ترین معاملات کی نگرانی کرتے تھے ۔ میر زبیر نے فوراً جائے واردات پر پہنچنے کو کہا تو میں نے اپنے فوٹو گرافر عامر قریشی کو ساتھ لیا اور تیزی ڈیفنس فیز 2 کی جانب روانہ ہو گیا۔ ہمارہ دفتر ڈیفنس سے دور نہیں تھا اور دوپہر کے اوقات میں ٹریفک بھی کم ہی ہوتی تھی اس لیے ہم جلد وہاں پہنچ گئے۔ 

علاقے کو محاصرے میں لیا جا چکا تھا اور لوگوں کو وہاں سے دور رکھا جا رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ عمارت کی چوتھی منزل پر واقع ایک فلیٹ سے پولیس پر مسلسل بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کی جارہی ہے اور دستی بموں سے حملہ بھی کیا جا رہا ہے۔ پولیس بھی بھرپور انداز سے ان دہشت گردوں پر جوابی فائرنگ کر رہی تھی۔ اسی دوران کچھ پولیس کمانڈو عمارت میں داخل ہو کر اوپر جانے لگے جبکہ دیگر نیچے سے دہشت گردوں پر فائرنگ کر رہے تھے۔

پچھلے پولیس مقابلے کی مانند اس کارروائی میں بھی پولیس سرتوڑ کوشش کر رہی تھی کہ "غیر ضروری جانی نقصان " سے بچا جائے ۔ ایک رہائشی علاقہ ہونے کی وجہ سے اس مقابلے میں بھی خدشہ تھا کہ ملزمان نے وہاں کے مکینوں کو یرغمال نہ بنا لیا ہو۔

ایک خوفناک مقابلے کے بعد آخر کار پولیس کمانڈوز نے 2 دہشت گردوں کو عمارت سے زخمی حالت میں مگر زندہ گرفتار کر لیا۔ ابتدا میں پولیس اہلکاروں کو علم نہیں تھا کہ انہوں نے کن دو افراد کو پکڑا ہے۔ اس مقام سے کچھ دیگر لوگوں کو بھی حراست میں لیا گیا جن کے بارے میں آپریشن مکمل ہونے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ مبینہ دہشت گردوں ہی کے اہل خانہ تھے ۔

میں نے آگے بڑھ کر شلوار قمیض میں ملبوس ان میں سے ایک زخمی شخص سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن یا تو وہ اردو نہیں جانتا تھا یا پھر انجان بن کر خاموش تھا۔ لیکن جلد ہی میری غلط فہمی وہاں موجود آئی جی پولیس کمال شاہ نے دور کر دی ۔ انہوں نے مجھےبتایا گرفتار افراد القائدہ کے انتہائی مطلوب دہشت گرد ہیں۔ اور ان کی اہل خانہ کو حفاظتی تحویل میں لیا گیا ہے۔

اور پلک جھپکتے میں ایک عام سی خبر دنیا کی سب سے بڑی خبر بن گئی۔ کچھ دیر بعد یہ تصدیق بھی ہو گئی کر گرفتار ہونے والا القائدہ کا انتہائی مطلوب رمزی بن ال شیبہ ہے جو القائدہ کے سرکردہ افراد کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔

بعد ازاں یہ انکشاف بھی ہوا کہ ایک رات قبل پولیس القائدہ کا نمبر 3 شیخ خالد محمد گرفتار ہونے سے بال بال بچ گیا جب کراچی ہی کے علاقے پی ای سی ایچ ایس میں خالد بن ولید روڈ پر ایک فلیٹ میں چھاپہ مارا گیا لیکن خالد شیخ محمد کسی طرح پولیس کو چکمہ دے کر بچ نکلا ۔

ساہیوال پولیس مقابلہ کیوں "جعلی" ہے؟

دیگر وجوہات کے علاوہ یہ حقیقت عیاں ہے کہ سانحہ ساہیوال میں انسانی جانوں کے نقصان سے با آسانی بچا جا سکتا تھا۔ اس دعوے کے باوجود کہ ذیشان دہشت گرد تھا اور وہ گاڑی کسی دہشت گرد کی تھی۔

اس سانحے سے کیوں کر بچا جا سکتا تھا ؟ اور کیوں یہ ایک "بہیمانہ قتل" ہے؟ ان سوالات کا جواب کی تلاش مشکل نہیں۔

1: اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ذیشان کے "داعش" سے روابت تھے اس کی جرائم کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ۔ یہ بھی یقینی نہیں کہ ذیشان کے دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے یا کوئی دیگر مجرمانہ ریکارڈ نہیں تھا۔ ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں رہ رہا تھا اور اس بات کے بھی کوئی ثبوت نہیں ملے کہ وہ غائب رہا کرتا تھا۔اس کے محلہ والوں کو کہنا تھا کہ جو گاڑی اس کے استعمال میں تھی وہ بھی تقریباً روزانہ ہی اس کے گھر کے باہر گھڑی ہوتی تھی۔ اسی طرح یہ کہنا مشکل ہے کہ کوئی ایسا شخص جسے اپنے پکڑے جانے کا خطرہ ہو اس طرح رہتا ہو اور پھر یہ کہ اسے غیر قانونی کارروائیوں کرنے جانا نہ پڑتا ہو ۔

2: اگر خفیہ رپورٹ تھی کہ ذیشان ایک دہشت گرد کے ساتھ سفر کر رہا ہے تووہ رپورٹ غلط ثابت ہوئی تھی۔ پھر کس طرح صوبائی وزیر قانون نے کس طرح خفیہ معلومات کی بنیاد پر اس آپریشن کو 100 فیصد درست قرار دیا تھا۔

3: اگر یہ مان بھی لیا جائے تو خفیہ اداروں کے کہنے پر "انسداد دہشت گردی ادارے" کے اہلکاروں نے ایک رات قبل چھاپہ مار کر اسے گرفتار کیوں نہیں کر لیا ؟ کیوں کہ خفیہ اداروں کا دعویٰ ہے کہ وہ دہشت گرد ذیشان کا کافی عرصے سے پیچھا کر رہے تھے۔لیکن پولیس مقابلے سے واضح ہوتا ہے کہ ایسی کوئی خفیہ رپورٹ سرے سے موجود ہی نہیں تھی ورنہ ملزم کو اس کے گھر سے با آسانی گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ کیوں کہ علاقہ مکین کہتے ہیں کہ وہ اپنے گھر میں ہی رہ رہا تھا ، خاص طور پر اس رات تو وہ وہیں موجود تھا۔

4: جب " انسداد دہشت گردی ادارے" کی ٹیم کو اس مخصوص گاڑی کا پیچھا کرنے کا کہا گیا تو کس مقام پر ان کو مزاہمت کا سامنا کرنا پڑا اور پولیس پارٹی پر فائرنگ کے کیا ثبوت ہیں؟ ایک سیدھی سڑک پر فائرنگ کرنے والی موٹر سائیکل اور اس کے سوار کہاں گم ہو گئے۔

5: ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ پولیس پارٹی نے گاڑی روکنے کے بعد مزید کارروائی کرنے سے پہلے اپنے بڑوں سے فون پر رابطہ کر کے مزید کارروائی کے لیے احکامات مانگے۔ جس پر انہیں ایس ایس پی کی جانب سے گاڑی پر فائرنگ کرنے کا حکم دیا گیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گاڑی کے روکے جانے اور اس میں سوار افراد کی جانب سے فائرنگ نہ کیے جانے کے باوجود کیوں مار ڈالا گیا؟

6: وہاں بنائی گئی لوگوں کے موبائل فون اور بس پر لگے سی سی ٹی وی کیمرے سے بنی ویڈیو میں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ گاڑی میں سے پولیس اہلکاروں نے تین معصوم بچوں کو نکال کر پولیس موبائل میں بٹھایا۔ ان میں سے چند زخمی حالت میں تھے۔ بچوں کو نکالنے کے بعد پولیس پارٹی نے گاڑی پر دوبارہ فائرنگ کی اور 35 سے 36 گولیاں داغی گئیں۔ اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بچوں کو نکالے جانے تک گاڑی میں سوار تمام افراد زندہ تھے اور انہیں با آسانی گرفتار کیا جا سکتا تھا۔

7: گو کہ اس واقعے کے بعد پولیس نے گاڑی سے بھاری اسلحہ اور بارود برآمد کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن ایک سینئر پولیس اہلکار کے مطابق گاڑی سے کوئی اسلحہ نہیں نکلا۔

ان تمام حقائق سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس جعلی پولیس مقابلے میں بے گناہ خاندان کے بڑوں کو ان کے بچوں کے سامنے نہایت بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ بچوں کے بیانات بھی اس حقیقت کی نشاندہی کررہے ہیں کہ گاڑی میں سوار تمام افراد نہتے تھے جن کا بہیمانہ انداز میں قتل کیا گیا۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ اس مقدمے کا کیا نتیجہ نکلتا ہے جس میں انسداد دہشت گردی ادارے کے صرف پانچ اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کر کے گرفتار کیا گیا ہے جبکہ بقیہ اہلکاروں کو "کلین چٹ" دے دی گئی ہے۔ واقعے کی سوشل میڈیا پر تشہیر اور اس کے خبروں کی اشاعت اور نشر کیے جانے نے وزیراعظم عمران خان کو بھی لاہور جا کر صوبائی کابینہ سے بریفنگ لینا پڑی۔ عمران خان نے کہا کہ اگر مارے جانے والے خاندان کے لواحقین جے آئی ٹی کے کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوتے تو ان کے مطالبے پر "عدالتی کمیشن" قائم کر کے واقعے کی تحقیقات کروا کر اصل حقائق سے عوام کو آگاہ کیا جائے۔

ایسا ہو گا کہ نہیں ؟ اس سوال کا جواب سوشل میڈیا کے ہوتے ہوئے چھپائے نہیں چھپے گا۔ 


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔