23 ستمبر ، 2019
پاکستان کرکٹ بورڈ ( پی سی بی) کے ڈومیسٹک کرکٹ کنٹریکٹ پر دستخط کرنے میں کھلاڑی ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے ڈومیسٹک کرکٹ نظام میں کھلاڑیوں کو پرکشش معاوضے دینے کے بلند و بانگ دعوے کئے گئے تھے تاہم 14 اکتوبر سے شروع ہونے والا 6 ٹیموں کا دوسرا راؤنڈ اب ختم ہونے کو ہے۔
پی سی بی کی جانب سے دیے جانے والے 16صفحات پر مشتمل کنڑیکٹ پر دستخط کرنے کے حوالے سے کھلاڑی تذبذب کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔50ہزار ماہانہ دے کر پی سی بی کھلاڑیوں سے سانس لینے کی بھی اجازت کا بول رہا ہے۔
ڈومیسٹک سینٹرل کنٹریکٹ میں سخت اور سمجھ نا آنے والی شقیں شامل ہونے کی وجہ سے کھلاڑی معاہدے پر دستخط کرنے کے حوالے سے محتاط ہیں۔
جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے ایک کرکٹر کا کہنا تھا کہ گھر میں بوڑھے والدین ہیں ، ان کی دوائیوں کا خرچہ ہے، بچے اسکول جاتے ہیں، گھر کے روز مرہ کے اخراجات ہیں، گاڑی کے پیڑول کا خرچہ ہے یہ سب ماہانہ 50 ہزار میں کیسے چلے گا؟ 75ہزار میچ فیس کے ساڑھے سات لاکھ تب ہی ملیں گے جب میں پورے دس میچ کھیلوں۔
قومی کرکٹ ٹیم کیلئے ٹیسٹ اور ون ڈے کھیلنے والے وہ کرکٹر جو اس وقت تو پی سی بی کے سینٹرل کنٹریکٹ کا حصہ نہیں ہیں لیکن وہ اپنے محکموں میں ٹیم ختم ہونے کے باوجود ملازم ہیں اور لاکھوں روپے تنخواہ کے علاوہ دیگر سہولیات سے بھی مستفید ہورہے ہیں ان کیلئے ڈومیسٹک کرکٹ کنٹریکٹ کی کوئی اہمیت نہیں۔
ایسی صورت حال میں کچھ کرکٹرز نے اس کنڑیکٹ پر دستخط نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور کچھ کا مؤقف ہے کہ کرکٹ کیلئے ڈیلی الاؤنس پر ہی کام چلا سکتے ہیں ، البتہ کنڑیکٹ پر دستخط ناممکن ہوگا۔
کھلاڑیوں کے اس لائحہ عمل کے حوالے سے امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ بورڈ میں پیشہ ورانہ انداز میں نظام لانے کی بات کرنے والے چیف ایگزیکٹو وسیم خان اور چئیرمین احسان مانی مصالحت کی پالیسی اپناتے ہوئے کوئی یوٹرن لے لیں۔