29 اکتوبر ، 2019
العزیزیہ ریفرنس میں نوازشریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کو ڈیل قرار دینے پر اینکرپرسنز کےخلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کےدوران اسلام آبادہائیکورٹ نے چیئرمین پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کوشوکازنوٹس جاری کرتےہوئے جواب طلب کرلیا ۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نےکہا کہ چیئرمین پیمراکو یہ اختیارکس نے دیاکہ آپ کہیں کہ ایک اینکرکسی دوسرے پروگرام میں نہیں جائےگا، کیایہ ہدایات عدالت نے دیں؟ آپ کام نہیں کرتے، عدالتی فیصلوں کا انتظارکرتے اورپھران کاغلط استعمال کرتے ہیں۔
نوازشریف کی ضمانت کو ڈیل قرار دینے پر اینکر پرسنزکے خلاف توہین عدالت کیس کی اسلام آبادہائیکورٹ میں سماعت ہوئی۔ دوران سماعت چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ اطہرمن اللہ نے چیئرمین پیمراکومخاطب کرکےکہا کہ ’آپ کو اس بات کا اختیارکس نے دیا کہ آپ کہیں کہ ایک اینکرکسی دوسرے پروگرام میں نہیں جائےگا، کیایہ ہدایات عدالت نے دیں ؟کیوں تمام ایگزیکٹو اتھارٹیز اور ریگولیٹرز اپنا کام نہیں کرتے؟ آپ کام نہیں کرتے، عدالتی فیصلوں کا انتظارکرتے ہیں اورپھران کاغلط استعمال کرتے ہیں ، آپ کوشوکازنوٹس جاری کررہے ہیں ‘۔
چیف جسٹس نے چیئرمین پیمراسےاستفسارکیا کہ کیاانہیں وفاقی حکومت نے کوئی ہدایات جاری کی تھیں ؟ کیا اتھارٹی اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ کس کا کردار اچھا ہے اور وہ ٹی وی پر آسکتا ہے؟ آپ اس بات پر شوکاز نوٹس جاری کر سکتے ہیں، آپ نے کہا کہ پڑھے لکھے لوگوں کو لائیں، ہوسکتا ہے کہ ایک ان پڑھ مزدور کا بہت زیادہ شعور ہو ۔
اس موقع پر چیئرمین پیمرانے کہا کہ صرف عدالت میں زیرسماعت معاملے سے متعلق ڈائریکٹو جاری کیاجس پر چیف جسٹس نےکہا کہ عدالتوں کو اسکینڈلائز کرنے پر کون سا قانون لاگو ہوتا ہے؟ جوڈیشری کو بدنام کرنے والوں کے خلاف اب تک کیا کارروائی کی؟
چیئرمین پیمرانےجواب دیا کہ اس معاملےپر اب تک 70 شوکاز نوٹسز جاری کیے ہیں۔ چیف جسٹس نےکہاآپ کے پاس بے پناہ اختیارات ہیں ، عدالت کا نام استعمال نہ کریں ، تحریری جواب دیں کہ عدالت کو اس معاملے میں کیوں گھسیٹا گیا؟
دوران سماعت چیف جسٹس اطہرمن اللہ نےکہابول ٹی وی کے سی ای او کدھر ہیں؟ راجا رضوان عباسی ایڈووکیٹ نےکہاوہ نہیں آئے، شاید انہیں بلایا ہی نہیں گیا۔ چیف جسٹس نےکہا کہ پروگرامزکے ٹرانسکرپٹ لائیں اور خود بتائیں کہ کیا اس میں کی گئی باتیں درست ہیں؟ عدالت نے اینکرپرسن محمد مالک کو بھی اپنے پروگرام کا ٹرانسکرپٹ اور سی ڈی جمع کرانے کی ہدایت کی ۔
اینکرپرسن حامدمیرنےکہا کہ غیراعلانیہ سنسر شپ لگی ہوئی ہے جس پر چیف جسٹس نےکہا کہ ہر پرائیویٹ ادارہ اپنی ذمہ داری نبھائے گا تو معاملات ٹھیک ہوں گے، آپ یہ ایشو بھی اٹھاسکتے ہیں، یہ تو پارلیمنٹ کا کام ہے کہ اس متعلق قانون سازی کرے ۔