’محبان کے ذریعے نوازشریف سے فیصلہ تبدیل کرایا گیا‘

نواز شریف واقعی بیمار ہیں، انہیں مرضی کا علاج کرانے کی اجازت دینی چاہئے: فائل فوٹو 

میرے ذاتی خیال میں حکومتی ادارے نواز شریف کے بیرونِ ملک علاج کے حوالے سے جو تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں، وہ حکومت کی نیک نامی کا باعث نہیں بن رہے۔ شوکت خانم اسپتال کے ڈاکٹر اور کراچی سے بلوائے گئے نامی گرامی ڈاکٹر اور ان کے علاوہ پورا میڈیکل بورڈ اس بات پر اتفاق اور تشویش کا اظہار کرچکا ہے کہ میاں نواز شریف کی بیماری کی تشخیص نہیں ہو سکی، میاں صاحب کے ڈاکٹر نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہم کہیں خدانخواستہ میاں صاحب کو کھو نہ بیٹھیں۔

اُدھر میاں صاحب کے صاحبزادے حسین نواز نے جس شبہے کا اظہار کیا ہے، اُن سب امور کی موجودگی میں میاں صاحب کی جلد از جلد بیرون ملک روانگی ضروری ہے، خود وزیراعظم عمران خان بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ میاں صاحب حقیقی طور پر بہت زیادہ بیمار ہیں اور یوں علاج کے لئے ان کے بیرونِ ملک جانے کا اشارہ بھی دیا۔

ایک طرف صورتحال یہ ہے اور دوسری طرف معتبر ذرائع یہ خبر دیتے رہے ہیں کہ میاں صاحب بیرون ملک جانے کے لئے بالکل تیار نہ تھے۔ ان سے اپنا فیصلہ تبدیل کرانے کے لئے اُن کے محبّان کو ان کے پاس بھیجا گیا کہ وہ ضد نہ کریں، اپنی جان داؤ پر نہ لگائیں اور علاج کے لئے باہر چلے جائیں مگر وہ نہ مانے۔

بالآخر ان کی والدہ کو جو نوے برس کی ہونے والی ہیں، کو متعدد بار ان کی طرف بھیجا گیا کہ اس خاندان میں بزرگوں کی عزت اور ان کا حکم ماننے کی روایت بہت مضبوط ہے، چنانچہ جب میاں صاحب کی والدہ نے انہیں کہا کہ وہ حکم دیتی ہیں کہ تم علاج کے لئے باہر جائو تو بیٹے کو ماں کی بات ماننا پڑی اور انہوں نے رضا مندی کا اظہار کردیا۔

اور جب میاں صاحب بیرون ملک علاج کے لئے تیار ہو گئے تو مختلف حکومتی اداروں کی طرف سے تاخیری حربے استعمال کئے گئے اور ڈاکٹر عوام کو جو صورتحال بتاتے رہے ہیں اس کے مطابق میاں صاحب کی زندگی کے حوالے سے ایک ایک دن بہت اہم ہے، جبکہ آج کا اخبار میرے سامنے ہے جس کی ہیڈ لائن ہے کہ میاں صاحب واپسی کا وقت بتائیں، کیس کی مالیت کے برابر رقم یا پراپرٹی بطور گارنٹی جمع کرائیں اور یہ رقم اربوں میں بنتی ہے۔ یہ فیصلہ وزیراعظم عمران خان کی زیرِ صدارت ان کی کابینہ نے کیا۔ اس کےساتھ ہی عمران خان کا بیان ہے کہ فیصلہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کیا گیا، ڈیل کا تاثر درست نہیں۔

نواز شریف واقعی بیمار ہیں، انہیں مرضی کا علاج کرانے کی اجازت دینی چاہئے۔ اس کے جواب میں میاں نواز شریف نے یہ شرائط ماننے سے انکار کردیا ہے اور شاید ٹھیک کیا ہے کہ ان کی طرف سے اس ضمن میں عدالت کو مچلکے جمع کرائے جا چکے ہیں، اگر وہ احتسابی جج کی طرف سے عائد کردہ جرمانے کی رقم ادا کرکے باہر جاتے ہیں، جس کا ابھی حتمی فیصلہ ہونا ہے تو کابینہ کا یہ فیصلہ ناقابلِ فہم ہے، اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوگا کہ نواز شریف خود پر لگائے گئے الزام کو درست تسلیم کرتے ہیں، ان حالات میں نواز شریف کے انکار کی وجہ سمجھ آتی ہے۔

اگر میں اس موقع پر عمران خان کو کوئی مشورہ دوں تو دوسروں کے علاوہ خود مجھے بھی عجیب لگے گا مگر میں یہ کہنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ عمران اپنے اس فیصلے پر نظر ثانی کریں، جہاں ان کے حمایتی موجود ہیں وہاں ان کے مخالفین کی تعداد بھی کم نہیں۔

میرے خیال میں اگر وہ فیصلے میں تاخیر نہ کرتے اور آخر میں یہ شرط عائد نہ کرتے تو شاید ان کے مخالفین کے دل میں بھی ان کے لئے نرم گوشہ پیدا ہو جاتا اور اس تاثر میں کمی آتی کہ وہ انتقامی سیاست کررہے ہیں

مگر افسوس ان کے سامنے سب گونگے ہو جاتے ہیں، بولتے صرف اس وقت ہیں جب انہیں کچھ کہنے کا اشارہ ملتا ہے۔ میں ایک بار پھر خان صاحب کو مشورے کی جسارت کرتے ہوئے عرض کروں گا کہ وہ میاں صاحب کے باہر جانے کے حوالے سے کوئی شرط عائد نہ کریں۔

یہ بات میں زور دے کر اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اگر اس دوران خدانخواستہ میاں صاحب کو کچھ ہوگیا تو انہیں اور ان کے گونگے رفقاء کو اندازہ نہیں کہ اندرون ملک ہی نہیں عالمی طور پر بھی اس کا ردِعمل کتنا شدید ہوگا۔

یہ سطور لکھتے ہوئے آج کے اخبار میں وفاقی وزیرِ قانون فروغ نسیم کا بیان اور اس حوالے سے اخبار نویس کے سوال اور فروغ نسیم کے جواب پر پڑی ذیل میں یہ خبر ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ حکومتی فیصلے کے قانونی حوالے کے ضمن میں خود وزیر قانون کیا کہتے ہیں۔

He said the sub-committee had done its job on merit and its decision was not binding on Nawaz Sharif. Asked under what law the committee or the government could get surety bonds from Nawaz Sharif who had already submitted them to the courts, the law minister simply replied: "No comments."

مزید خبریں :