کراچی میں تجاوزات کے خلاف آپریشن میں اچانک تیزی کیوں؟

— فائل فوٹو

حکومت سندھ کی جانب سے کئی برسوں سے تاخیر کا شکار عدالتی حکم ناموں پر عمل درآمد شروع کردیا گیا ہے۔صوبے کے دیگر شہروں کو حال تو ابھی تبدیل نہیں ہوا لیکن کراچی میں تیزی سے تجاوزات کے خلاف آپریشن شروع کردیا گیا ہے۔

شہر میں فٹ پاتھوں کو خالی کرایا جارہا ہے اور ٹھیلوں کو شاہراہوں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ شاید قانون کی رٹ قائم ہونے جارہی ہے۔ یہ سب کام اب ضلعی حکومتیں ، بلدیاتی ادارے اور حکومت سندھ کے محکمے کرتے نظر آرہے ہیں ۔

تجاوزات اور زمینوں پر قبضے ، پانی کی فراہمی اور غیرقانون تعمیرات سے متعلق کیسز میں سپریم کورٹ کی جانب سے کئی مرتبہ احکامات جاری کئے گئے لیکن حکومت کی جانب سے نمائشی اقدامات کے بعد کچھ عرصہ گزرنے کےبعد پھر وہی کھیل شروع ہوجاتا جس میں تمام بلدیاتی، صوبائی ادارے پولیس و ٹریفک پولیس اپنا اپنا حصہ ایمانداری سے ڈال کر وصول کرتے نظر آتے تھے۔عقل سمجھنے سے قاصر ہے کہ سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں بنچ نے کئی سخت احکامات جاری کیے۔ ان پر فوری اقدامات نظر آئے لیکن کچھ عرصے بعد صورت حال جوں کی توں ہوگئی ۔

ا ب ایسا کیا ہے کہ اچانک اقدامات ایسے لگ رہے ہیں کہ شاید اب مستقل طور پر قانون حرکت میں رہے گا۔ پولیس موبائلیں زیادہ نقل و حرکت میں ہیں اور کسی کو پتھارے لگانے میں معاونت نہیں کررہیں بلکہ ہٹانے کی ترغیب دے رہے ہیں۔

کے ایم سی انکروچمنٹ فورس کی کاروائی بھی جاری ہے۔ سندھ حکومت نے بلڈنگ اتھارٹی کے قوانین کی خلاف ورزی پر فیصلوں کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کی منظوری بھی دے دی۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے بھی اچانک غیرقانونی تعمیرات پر ڈنڈا اٹھالیا ہے۔ صوبے بھر میں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے پولیس اسٹیشنز قائم کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔

اب بھی حکومت سندھ ، کنٹونمنٹ بورڈز اور بلدیاتی اداروں کی جانب سے عدالتی فیصلے کی روح کے مطابق اقدامات نظر نہیں آرہے بلکہ صرف نظروں کے دھوکے کے مترادف ظاہری اقدامات کئے جارہے ہیں۔ مین شاہراہوں ، اہم دفاتر، سپریم کورٹ، ہائی کورٹ، ضلعی عدالتوں ، سیکریٹریٹ اور دیگر سرکاری دفاتر کے اطراف سے تجاوزات ہٹادی گئی ہیں۔

اطراف میں جاکر جائزہ لیں تو قبضے برقرار ہیں پتھارے موجود ہیں ذرا نظروں سے ہٹا کر اب یہ چیزیں گلیوں میں قائم کردی گئی ہیں۔ دوسری جانب کی منسلک سڑکوں پر پتھارے اور قبضے جاری ہیں۔

کنٹونمنٹ بورڈ ز میں نجی رہاِئشی سوسائٹیوں پر ریٹائرڈ سرکاری افسران کے نام پر غیرقانونی نرسریاں تیزی سے قائم کی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے اپنے منصوبوں میں تیزی لانے کی کوشش شروع کردی ہے لیکن ہائیڈرنٹ مافیا کا کام بدستور جاری ہے۔ شہر میں اب بھی بڑا حصہ پانی کی فراہمی سے محروم اور سیوریج کا نظام تباہ حال ہے۔ بلدیاتی ادارے اب تک اپنی سمت کا تعین نہیں کرسکے کچرا اٹھانا اب تک متنازع بنا ہوا ہے کئی محکمے میں کام تقسیم ہونےکے باوجود میونسپل سروس کے کام ادھورے ہیں ۔

شہر میں اب بھی مین شاہراہوں کے علاوہ سڑکوں کا حال برا ہے۔حکومت سندھ اور بلدیاتی اداروں میں تنازعات سے کئی شاہراہیں اور علاقائی سڑکیں مرمت سے محروم ہیں ۔کنٹونمنٹ کے علاقوں میں شامل سول آبادیوں میں سڑکیں تباہی کا شکار ہیں جب کہ مختلف ٹرانسپورٹ منصوبوں کے مکمل ہونے کا انتظار طویل ہوتا جارہا ہے۔

گرین لائن ،یلولائن کے بعد ریڈ لائن کی باتیں کب پایہ تکمیل کو پہنچیں گی اور ان پر بسیں کون چلائے گا یہ تعین ابھی نہیں ہوسکا۔شہر میں کچھ کاروباری افراد نے ہمت کرکے عوام کے لیے ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ٹرانسپورٹ کی سہولتیں فراہم کرنا شروع کی ہیں جسے عوام کی جانب سے پذیرائی حاصل ہورہی ہے لیکن اس پر سرکاری اداروں کا ردعمل کچھ مناسب نہیں دکھائی دے رہا۔

کچھ سرکاری افسران سے بات چیت کا موقع ملا تو یہ سمجھ آیا کہ عدالتی احکامات پر یکدم عمل درآمد اور تیزی کی وجہ یہ ہے کہ نئے آنے والے چیف جسٹس کے عدالتی فیصلوں پر عمل درآمد اب بہت ضروری ہے تاکہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں ان کیسز کے عمل درآمد سے متعلق سماعت میں سندھ حکومت اپنی بہتر کارکردگی دکھاسکے۔

مزید خبریں :