23 دسمبر ، 2019
اسلام آباد ہائیکورٹ نے ایل این جی کیس میں گرفتار ن لیگی رہنما مفتاح اسماعیل کی ضمانت منظور کر لی۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں ن لیگی رہنما کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کے دوران مفتاح اسماعیل کے وکیل نے مؤقف اپنایا کہ ان کے مؤکل پر الزام لگایا گیا کہ کنسلٹنٹ کی تقرری غیرقانونی ہوئی۔
وکیل مفتاح اسماعیل نے کہا کہ کنسلٹنٹ کو یو ایس ایڈ نے لگایا، مفتاح اسماعیل اس وقت سوئی سدرن بورڈ میں بھی نہیں تھے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب پراسیکیورٹر سے استفسار کیا کہ مفتاح اسماعیل کا کتنا جسمانی ریمانڈ لیا گیا؟ نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ مفتاح اسماعیل 49 روز نیب حراست میں رہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کیا نیب کی مفتاح اسماعیل سے تفتیش مکمل ہو گئی؟ جس پر نیب کے تفتیشی افسر نے بتایا کہ ایل این جی کیس کی تحقیقات جاری ہیں، عبوری ریفرنس دائر کیا ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ سیکرٹری پیٹرولیم ایل این جی کیس میں وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں۔
نیب کے تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ایل این جی کیس کے گواہوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ کس گواہ کو دھمکی دی گئی؟ جس پر نیب حکام نے بتایا کہ چیئرمین سوئی سدرن کمپنی زہیر صدیقی گواہ ہیں انہیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
جسٹس میاں گل حس اورنگزیب نے کہا کہ زہیر صدیقی خود نیب کیسز کے ملزم ہیں، آپ ملزم کو کیوں جیل میں رکھنا چاہتے ہیں؟
نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ مفتاح اسماعیل کے بیرون ملک فرار ہونے کاخدشہ ہے، جس پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ جرم ثابت ہونے تک ملزم بےگناہ تصور ہوتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ ہم مفتاح اسماعیل کو پابند کرتے ہیں کہ وہ رہائی کے بعد روزانہ تفتیشی افسر کو فون کریں گے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد ایک کروڑ روپے کے مچلکوں کے عوض مفتاح اسماعیل کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم صادر کیا۔
خیال رہے کہ نیب نے 7 اگست کو درخواست ضمانت مسترد ہونے پر ایل این جی کیس میں نامزد مسلم لیگ ن کے رہنما مفتاح اسماعیل کو گرفتار کیا تھا۔