نواز شریف کا سچ

سابق وزیراعظم نواز شریف—فائل فوٹو

گزشتہ چند دنوں میں بہت کچھ بدل گیا ہے، لگتا ہے نیا سال شروع نہیں ہوا بلکہ قوم کا نیا حال شروع ہوا ہے اور مسلک، زبان، سیاسی وفاداریوں اور مختلف ذاتوں کے چنگل میں جکڑی یہ قوم اُمید اور مایوسی کے درمیان ایک نئے سفر پر نکل کھڑی ہوئی ہے۔سب رستہ دکھانے والے نئی پیکنگ میں پرانا چورن بیچ رہے ہیں اور قوم دل بھر کر ایک دفعہ پھر خریداری میں لگ گئی ہے اور یہ ہی ہماری قوم کی خصوصیت ہے کہ خرید سب کچھ لیتی ہے۔

اس قوم کو غداری کے لباس میں وفاداری بیچی جاتی ہے اور وفاداری کے لباس میں غداری، سچ کی آواز میں جھوٹ اور جھوٹ کی آواز میں سچ، سوال کرنے والے یا رستہ دکھانے والے کو گالیاں اور بھٹکانے والے کو تالیاں ملتی ہیں لہٰذا موقع پرستوں نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ قوم کیا خریدے گی اور وہ دبا کر بیچ رہے ہیں۔

کبھی ڈٹ جانا بک جاتا ہے تو کبھی بغیر ایک لفظ کہے ہٹ جانا بک جاتا ہے، بس خریدار مختلف ہوتا ہے۔ کبھی آواز، کبھی انداز، کبھی احساس اور کبھی لباس، سب کے خریدار موجود ہیں بس آپ کو بولی لگوانا آنا چاہئے۔

سیاست کے میدانوں میں اچانک رونما ہونے والی تبدیلیاں اسی خرید وفروخت کا حصہ ہیں جو کبھی ختم نہ ہوں گی۔ جس نے بھی خریداری کے اس نظام کے درمیان آنے کی کوشش کی وہ یا تو منڈیلا کی طرح زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزار گیا یا پھر سرِعام بھٹو کی طرح پھانسی چڑھ گیا۔

آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد چاہے کوئی سیاست دان ہو یا صحافی، بس تان اسی پر آکر ٹوٹتی ہے کہ نواز شریف تو نے یہ کیا کر دیا۔

بڑے بڑے صحافی مسلم لیگ کے مرکزی قائدین جو ’’ووٹ کوعزت دو‘‘ کے بیانیے کے بعد جیلوں میں رہے ہیں یا ابھی تک ہیں، کو مظلوم ترین بنا کر پیش کر رہے ہیں کہ اگر نواز شریف نے یہ ہی سب کرنا تھا تو ان بیچاروں نے جیل کی سختی کیوں برداشت کی؟

نواز شریف نے بُرا کیا ان کے ساتھ، ان کو بیوقوف بنایا، میں ان مظلوموں سے سوال کرنا چاہتا ہوں کہ آج آپ جو ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر اپنی قیادت کو الزام دے رہے ہیں کہ آپ کے ساتھ دھوکا کیا گیا، آپ کو یہ عزت، یہ مقام، یہ وزارت، یہ طاقت، یہ ووٹ کس کی وجہ سے ملے؟کیا اس سے پہلے آپ کبھی جیل میں رہے؟ کیا کوئی مصیبت جھیلی؟ تب تو آپ نے نہیں کہا کہ شکریہ نواز شریف! یہ سب تمہاری وجہ سے ہے، بھارت میں کہا جاتا ہے کہ راج نیتی ایک پیکیج ڈیل ہوتی ہے جس میں کبھی آپ ریل میں ہوتے ہیں اور کبھی جیل میں۔

لہٰذا سب کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے اور کون سے نواز شریف سے آپ شکایت کر رہے ہیں؟ اُس سے جو جب لندن سے اپنی بیٹی کے ساتھ آپ کا سر اونچا رکھنے کے لیے بیمار بیوی کو بسترِ مرگ پر چھوڑ کر گرفتاری دینے کے لیے لاہور پہنچا تو آپ کا دور دور تک پتا نہیں تھا۔ کیا اس نااہلی پر آپ کو کوئی شرمندگی نہیں؟ اب زبان پر سوال لانے والے کیا اُس وقت گونگے ہو گئے تھے؟اور بتائیے بار بار آپ کہتے ہیں کہ ہم ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے پر ڈٹے رہے، جیل گئے مگر نواز شریف نے ایک بار پھر سودا کرلیا، آپ میں سے کون ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے بیانیے پرجیل گیا؟ آپ میں سے کسی ایک پر بھی اگر بغاوت کا مقدمہ ہے؟

آپ سب کرپشن کےمقدمات میں جیل گئے اور وہ بھی اُن قصوروں پر جو ماضی میں کیے۔ سچے ہیں یا جھوٹے، اس کا قصوروار نواز شریف نہیں، آپ خود ہیں۔ آج آپ روز کسی نہ کسی صحافی کے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر نواز شریف کو دوغلا اور دھوکے باز ثابت کرنے پر تُلے ہیں، اگر آپ میں ذرا بھی شرم ہو تو آپ ایک لفظ اپنی زبان پر نہ لائیں کیونکہ جب آپ کو وزارتیں بٹ رہی تھیں، اسمبلیوں کےٹکٹ مل رہے تھے تب آپ نے نہیں سوچا کہ یہ ریل اور جیل کا کھیل ہے۔ 

کون جانتا تھا آپ کو؟ ن لیگ کے عباسیوں، چوہدریوں یا خواجوں کو پہچان تو نواز شریف نے دی۔ آج جب کوئی صحافی کہتا ہے کہ خواجہ آصف جیسے بڑے سیاست دان کے ساتھ زیادتی ہوگئی تو کیا وہ یہ بتائے گا کہ خواجہ آصف کو بڑا سیاستدان بنایا کس نے؟

جو لوگ قرآن پر حلف لیکر پھر اُس حلف کو توڑ دیں اُن کی لیے آواز اُٹھانا اخلاقی یا اسلامی طور پر جائز ہے؟ کیا نواز شریف کا یا مریم نواز کا کوئی بھی ایسا بیان ریکارڈ پر ہے کہ جس میں اُنہوں نے کہا ہو کہ ہم ترمیم کی مخالفت کریں گے۔

باتیں بہت ہیں لکھنے کو مگر مقصد کسی کو شرمندہ کرنا نہیں بلکہ تصویر کے حقیقی رُخ کو دکھانا ہے اور حقیقی رُخ یہی ہے کہ اس ترمیم سے جمہوریت کو فائدہ ہوا ہے، نقصان نہیں۔ اور شروع میں اس ترمیم کے حق میں ووٹ دینے کے معاملے کو مشکوک اپوزیشن جماعتوں نے ہی بنایا ،کسی اور نے نہیں۔

ایک دیوانہ وزیر ٹی وی پر جوتا لے آیا، دراصل کسی اور کو شرمندہ کرنے کے لیے نہیں بلکہ پاک فوج کو اور اس ناسمجھ کو پتا ہی نہ چلا کہ اُس کے اس عمل کا نقصان نواز شریف کو کم اور خود اُنہیں زیادہ ہوا۔

حقیقتاً اس ترمیم نے مستقبل کے لیے ایک واضح لائن آف ایکشن دے دی جہاں وزیراعظم اپنے اختیار کو آئینی حدود میں رہتے ہوئے استعمال کر سکیں گے اور کوئی اس پر غیر آئینی ہونے کا الزام نہ لگا سکے گا۔ ایک طرح سے یہ ایک مستقل حل نکل آیا ہے جس کو ہم اس ترمیم کے بعد ڈاکٹر آئین کہ سکتے ہیں یعنی آئین کا علاج کرنے والا ڈاکٹر۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

مزید خبریں :