بلاگ
Time 05 مارچ ، 2020

کورونا آ گیا، پولیو گیا نہیں

فائل فوٹو

ابھی میں یہ کالم لکھنے بیٹھا ہی تھا کہ دروازے پر گھنٹی بجی۔ باہر جاکر دیکھا تو دو برقع پوش خواتین ہاتھ میں ایک رجسٹر لیے کھڑی تھیں۔ آپ کے یہاں چھوٹے بچے ہیں؟ ہم لیڈی ہیلتھ ورکر ہیں پولیو کے قطرے پلانے ہیں۔ میں نے کہا، نہیں بیٹا! 

ان کے ساتھ کچھ فاصلے پر ایک پولیس کانسٹیبل بھی تھا۔ نہ ان کے پاس کوئی گاڑی تھی مگر وہ پورے محلے میں صرف یہ پوچھ رہی تھیں کہ اگر کوئی پانچ سال تک کے بچے ہوں تو ان کو قطرے پلاکر ان کا مستقبل بچایا جاسکے۔

کوئی قومی ایوارڈ تو دور کی بات ہم ان کی جان کی حفاطت بھی نہیں کر پا رہے۔ درجنوں اس مہم میں مار دی گئیں۔ تصور کریں اگر اس جیسے مہلک مرض پر بین الاقوامی رپورٹ یہ کہہ رہی ہے کہ پاکستان میں پولیو پر سیاسی اتفاق رائے نہیں ہے، تو آپ اس کورونا وائرس سے کیسے لڑیں گے۔ 

ہم چین میں پھنسے اپنے بچے تو واپس نہ لا سکے، کورونا آگیا۔ اس ملک میں ہمیں آپس میں لڑنے سے فرصت ملے تو ہم بیماریوں سے لڑیں گے۔ صرف کراچی میں پچھلے 40سالوں میں کوئی 50ہزار افراد لسانیt، فرقہ واریت اور دہشت گردی کا شکار ہو گئے۔ 

جب پورا ملک اس کی لپیٹ میں آیا تو 20سالوں میں 70ہزار لوگ شہید ہوگئے جن میں ہمارے جوان، افسر، سیاسی قائدین اور عام آدمی شامل ہیں۔ منشیات آئی تو مافیا بھی آ گیا، انڈر ورلڈ کا کاروبار بھی چل نکلا اور اگر ریاست کنفیوژ رہی تو سیاسی جماعتیں تقسیم رہیں۔ منشیات کا وائرس آیا تو معاشرے میں برائیاں زور پکڑ گئیں۔ 

اسلحہ آیا تو زور زبردستی سے بات منوانے کا کلچر فروغ پانے لگا۔تعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی، ایک مناسب ٹرانسپورٹ، اچھی سڑکیں تو ہم دے نہ سکے، بیماریاں، گندے اسپتال، کوڑا کچرا دے دیا پھر ایک ایسے بیانیے نے جنم لیا جس نے براہِ راست ہماری نسل کو متاثر کیا۔ 

ہر چیز میں ہم انتہا پسندی کا پہلو لے آتے ہیں۔ دنیا ہمیں الرٹ کرتی رہی کہ پاکستان میں پولیو پھیلنے کا خطرہ ہے مگر صرف قطرے کی دوا کو جائز یا ناجائز بحث کا حصہ بنا لیا گیا۔ بچوں کو پولیو ہوتا گیا اور ہم خاموش رہے۔ آج تک پارلیمنٹ میں اس مسئلے پر بحث نہیں ہوئی، ہماری سیاسی اور خاص طور پر مذہبی جماعتوں کی مجرمانہ خاموشی سے مرض پھیلتا چلا گیا۔ ہماری نااتفاقی نے آج ہمیں اس خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔

ہمارے ہاں سیاست بکتی ہے تو میڈیا میں موضوع بھی سیاسی رہتا ہے۔ صحت اور تعلیم پر پروگرام کریں تو شو کی ریٹنگ نہیں آتی۔ تعلیم، صحافت، سیاست سب تجارت بنا دی گئی ہیں۔ کیا سندھ، کیا پنجاب، کیا خیبر پختونخوا اور کیا بلوچستان، کیا گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر اور پھر وفاقی دارالحکومت، کوئی شہر یا صوبہ بتائے جہاں کی میں مثال دوں کہ یہاں کے تعلیمی ادارے اور اسپتال مثالی ہیں؟ ملک کو کبھی ویلفیئر اسٹیٹ بنانے کا سوچا ہی نہیں گیا۔ اب ایک نئے دور کی نوید دی جا رہی ہے۔ 

ہر دس سال بعد ہم ایک ’نیا پاکستان‘ بناتے ہیں مگر اب تک وہ بن نہ سکا۔ خدا کرے ان پانچ سالوں میں کچھ عملی طور پر بھی دیکھنے کو ملے۔ یہ سب کچھ بیان کرنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ آخر کب ہم اپنی ترجیحات طے کریں گے۔

یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ مصیبت آنے سے پہلے نہیں‘ آنے کے بعد اس کی فکر کرتے ہیں۔ اس سے بڑی اس قوم کی بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ ابھی کورونا چین تک محدود تھا ہم نے ’ماسک‘ کی قیمت بڑھانا شروع کر دی۔ سرکاری اسپتال تو ویسے ہی ایک ’وائرس‘ سے کم نہیں اور نجی اسپتال میں ایک عام آدمی کیا، ایک متوسط طبقے کا فرد بھی علاج کرانے کی سکت نہیں رکھتا۔

ایک دن ہماری ماسی بس میں سوار نہیں ہو پائی تھی کہ بس چل پڑی۔ لوگوں نے جناح اسپتال پہنچا دیا۔ گو کہ یہ سرکاری اسپتال ہے مگر اس کا ایمرجنسی وارڈ قدرے بہتر ہے۔ کچھ جاننے والے ڈاکٹر مل گئے، میں نے کہا کہ اسے نجی وارڈ میں داخل کر دیں۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر نے جو ماسک پہنے ہوئے تھا، مجھ سے درخواست کی مظہر صاحب بہتر ہے کسی نجی اسپتال میں داخل کروا دیں، ویسے اب وہ ٹھیک ہے۔ میں نے وجہ پوچھی اور کہا، یار تم یہاں کام کرتے ہو اور مجھے مشورہ دے رہے ہو کہ اسے کسی اور جگہ داخل کرا دوں؟ اس کے جواب نے مجھے لاجواب کردیا کہ یہ اسپتال ایک وائرس سے کم نہیں۔ ادھر وارڈ میں ہم خود ماسک پہن کر جاتے ہیں۔ پھر وہ مجھے کچھ وارڈز میں لے گیا۔ 

یقین جانیں میں سوچتا ہوں کہ کورونا سے مقابلہ کیسے کریں گے۔ جہاں دوائیں خرید سے باہر ہوں وہاں خدا نہ کرے یہ وائرس وائرل ہو۔ لوگوں کو اپنی ذمہ داری پوری کرنا پڑے گی۔ اگر آپ کو ذرا بھی اس کی علامت محسوس ہوں تو ڈاکٹر کے پاس یا اسپتال پہنچیں۔ 

احتیاط سب سے بہتر علاج ہوتا ہے۔ ہم بنیادی طور پر لاپروا قوم ہیں۔ سگریٹ کی ڈبیہ پر لاکھ یہ لکھا ہو کہ اس سے کینسر ہو سکتا ہے، چھوڑتے اس وقت تک نہیں ہیں جب تک ڈاکٹر سجنیدگی سے منع نہ کر دے یا پھر دل کے عارضے میں مبتلا نہ ہو جائیں۔

پان اور گٹکے کو ہی لے لیں، پتا ہوتا ہے کہ اس سے منہ کا کینسر ہو سکتا ہے مگر عادت ہے کہ پیچھا ہی نہیں چھوڑتی۔ ایمرجنسی عام طور پر اس وقت لگتی ہے جب صورتحال کنٹرول سے باہر ہو ہمارے یہاں تو صحت کبھی ترجیحات میں شامل ہی نہیں ہوئی ورنہ اس ملک میں جعلی دوائوں کا کاروبار نہ ہو رہا ہوتا۔ خدا اس ملک کو ہر طرح کے وائرس سے بچائے۔ کورونا کا رونا نہ روئیں۔ اب آہی گیا ہے تو مقابلہ کرکے شکست دیں۔ باقی جو اللہ کو منظور۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔